پاکستان

قائد اعظم یونیورسٹی: جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا واقعہ

ایک طالبہ نے اسسٹنٹ پروفیسر پر یہ الزام عائد کیا ہے، جبکہ پروفیسر نے اس کو اپنے خلاف سازش قرار دیا۔

اسلام آباد: بدھ کے روز جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے ایک رسواکن واقعے نے قائداعظم یونیورسٹی کو ہلا کر رکھ دیا۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے سماجی سائنس کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ ہاشمی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک طالبہ کی شکایت کی چھان بین کریں۔

شکایت کرنے والی طالبہ اس یونیورسٹی میں ایم بی اے کررہی ہیں اور اس وقت پانچویں سیمسٹر میں ہیں۔ وائس چانسلر کو اپنی شکایت میں انہوں نے اسکول آف مینجمنٹ سائنس کے ایک پروفیسر پر الزام لگایا ہے کہ اپنی مارکس شیٹ کی غلطی کو درست کروانے کے لیے جب وہ ان کے دفتر میں گئیں تو اس پروفیسر نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔

طالبہ کے مطابق وہ اس وقت وہاں سے بھاگ آئیں، لیکن اس کوشش میں ان کا ڈوپٹہ وہیں رہ گیا۔

مذکورہ طالبہ کے ایک کلاس فیلو شعیب حسن کا کہنا ہے کہ ’’انہوں نے آفس اسٹاف کو بتایا تھا کہ وہ لنچ بریک کے دوران اس ٹیچر کے پاس جائیں گی۔ جب وہ منگل کووہاں گئیں تو انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، اور وہ بھاگ آئیں۔ بعد میں اسٹاف نے ان کا ڈوپٹہ واپس کردیا۔‘‘

تاہم جس پروفیسر پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے، انہوں نے اس کی صحت سے انکار کردیا ہے اور اس کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا ’’میں تیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں اور میرے بارے میں کسی نے بھی کوئی شکایت نہیں کی۔ اگر انکوائری کے دوران مجھے غلط پایا گیا تو میں مستعفی ہوجاؤں گا۔‘‘

وائس چانسلر ڈاکٹر اعتزاز احمد بھی اس معاملے کے بارے میں شبہات میں مبتلا نظر آئے۔

انہوں نے بتایا ’’اس میں نمبروں کا معاملہ شامل ہے اور یہ کوئی سادہ کیس نہیں ہے۔ یہ لڑکی ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتی ہے، جسے پہلے ہی انضباطی کارروائی کا سامنا ہے۔ یہ اس اسسٹنٹ پروفیسر کو بلیک میل کرنے کا ایک حربہ ہوسکتا ہے۔‘‘

وائس چانسلر نے کہا ’’اگر انچارج نے اس کی مدد نہیں کی تھی تو اس کو میرے آفس آنا چاہیٔے تھا، جیسا کہ اس واقعے کے بعد اس نے کیا تھا۔ بہرحال اس انکوائری کے بعد ہی میں اس کے بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گا۔‘‘

جنوری کے بعد یہ قائداعظم یونیورسٹی میں ہونے والا جنسی طور پرہراساں کیے جانے کا دوسرا کیس ہے۔ پچھلے کیس کو تفتیش کاروں نے ناکافی ثبوت کی بناء پر مسترد کردیا تھا۔

حالیہ معاملے میں شکایت کرنے والی طالبہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے ٹیچر ڈاکٹر نصیر نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی مارکس شیٹ میں ایک غلطی ہوئی ہے اور انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اس کو اسسٹنٹ پروفیسر کو دکھائیں تاکہ یہ غلطی درست کی جاسکے، جس کی وجہ سے وہ انٹرنل ایگزام میں فیل ہوگئی تھی۔

ڈان کو دستیاب طالبہ کی شکایت کے مطابق، انہیں اسٹریٹیجک مینجمنٹ کے انٹرنل امتحان میں 75 میں سے 53 نمبر دیے گئے تھے، لیکن مارکس شیٹ میں 75 میں سے 47 درج کیے گئے۔

انہوں نے فائنل امتحان میں 75 میں سے 24 نمبر حاصل کیے اور کل نمبر 150 میں سے 71 قرار پائے۔ جبکہ امتحان پاس کرنے کے لیے پچاس فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔

مذکورہ طالبہ کا کہنا ہے کہ چھ نمبروں کی غلطی نے انہیں امتحان پاس کرنے سے محروم کردیا تھا۔

طالبہ نے کہا کہ انہوں نے اپنی امتحان کی اصل کاپی سے یہ غلطی ثابت کی تھی، اور انہیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اسسٹنٹ پروفیسر سے اس کو درست کروائیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ وہ جان بوجھ کر اس میں تاخیر کر رہے تھے۔ ان کے دفتری اوقات میں انہوں نے بار بار چکر لگائے۔ ہر مرتبہ ان کے عملے نہیں ان سے کہا کہ آپ دوپہر کے وقت آئیں ’’اس وقت ان کا موڈ اچھا ہوتا ہے۔‘‘

شعیب حسن نے دعویٰ کیا کہ ’’دراصل اس نے کل 77 نمبر حاصل کیے تھے اور اس نے اس غلطی کو درست کروانے کی اپنی بھرپورکوشش کی تھی، لیکن یہ ٹیچر نے تاخیری حربے اختیار کررہے تھے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس کے علاوہ انہوں نے اصل امتحانی کاپی واپس کرنے سے انکار کردیاجو اس نے بطور ثبوت انہیں دی تھی۔‘‘

تاہم مذکورہ پروفیسر نے سختی کے ساتھ ان الزامات کی تردید کی ہے، انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اساتذہ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’میں نے اس طالبہ کا بتایا تھا کہ یونیورسٹی میں متعلقہ ٹیچر ہر معاملے سے واقف ہوتا ہے اور اس شعبے کے انچارج کی حیثیت سے میں اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی طرح برتاؤ کیا، لیکن وہ اصرار کرتی رہی کہ مجھے اس کے نمبروں میں اضافہ کردینا چاہیٔے، جو میرے لیے ممکن نہیں تھا۔‘‘

2010ء کے دوران پارلیمنٹ میں کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف خواتین کے تحفظ کا قانون پاس کیے جانے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی وہ پہلا تعلیمی ادارہ تھا، جہاں 2011ء میں ایک لڑکی کی جانب سے ایک شکایت موصول ہوئی تھی۔

اس وقت یونیورسٹی نے ایک انکوائری کے بعد اسٹاف کے ایک سینئر رکن کو برطرف کردیا تھا۔ لیکن یونیورسٹی کے اس وقت کے چانسلر صدر آصف علی زرداری نے یہ سزا منسوخ کردی تھی۔