انقلاب کی بارگیننگ
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں ایک بار بازار ایک چپل خریدنے کے لیے گیا تو دکان پر ایک گاہک پہلے سے مو جود تھا۔ دکاندار نے اس کے پوچھنے پر چپل کی قیمت نو سو روپے بتائی۔ مجھے قیمت سن کر کافی حیرت ہوئی کیوں کہ میر ے خیال میں اس چپل کے لیے یہ قیمت کافی زیادہ تھی۔
میں سوچ رہا تھا کہ گاہک یہ قیمت سن کر آگے بڑھ جائے گا لیکن شائد وہ اس طرح کی چپل یا اس طرح کی خرید و فروخت کا عادی تھا نو سو روپے سن کر اس کے کان پر جوں تک نا رینگی۔ وہ چپل میں کبھی اک پاؤں کبھی دوسرا ڈال کر چیک کرتا رہا اور جب تسلی ہو گئی تو اس نے اپنی آفر دی۔
آفر سن کر مجھے پہلے سے بھی زیادہ حیرت اس لیے ہوئی کہ گاہک نے جو قیمت لگائی تھی اسے سن کر میرا خیال تھا کہ دکاندار اپنے پیر سے چپل اتار لے گا۔ وہ گاہک یہ چپل نوے روپے میں خریدنا چاہتا تھا!
میرا خیال دوسری بار بھی غلط ثابت ہوا، شاید دکاندار بھی ایسے گاہکوں کاعادی تھا وہ اس توہیں آمیز آفر سے بالکل مشتعل نہ ہوا اور قیمت بڑھانے پر اصرار کرنے لگا۔ مجھ اس سودے میں اپنی چپل سے زیادہ دلچپسپی پیدا ہو گئی اور میں بحث سننے کھڑا ہو گیا۔
ایک طرف گاہک مسلسل دکاندار سے قیمت گھٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے بتا رہا تھا کہ اس طرح کی چپل اس کی بتائی ہوئی قیمت میں اس بازار کی ہر دوسری دکان پر دستیاب ہے تو دوسری طرف دکاندار اپنے زندہ مردہ تمام قسموں کے رشتہ داروں کی قسمیں کھا کھا کر گاہک پر یہ ثابت کر رہا تھا کہ جس قیمت میں وہ چپل اسے دے رہا ہے اس قیمت میں چپل بیچنے سے اسے اتنا نقصان ہو رہا ہے کہ شائد شام تک دکان بند کرنے کی نوبت آ جائے۔
اس پرزور اور لاحاصل بحث کے باوجود نا تو گاہک کسی اور دکان پہ --جہاں اس کے بیان کے مطابق اس کی مطلوبہ چپل اس کی مجوزہ قیمت میں دستیاب تھی-- جا رہا تھا اور نا دکاندار گاہک کی پیشکش کو قبول کرنے اور اپنی دکان بند کرنے پر آمادہ تھا۔
بحث کچھ اس طرح چل رہی تھی کہ گاہک ہر بار ایک ایسی دکان گنوانے کے بعد جہاں اس کی پسند کی چیز اس کے بیان کے مطابق اس کی پسند کی قیمت پر مل رہی تھی اپنی بتائی ہوئی قیمت میں بیس پچیس روپے کا اضافہ کر دیتا اور دکان دار ہر بار اپنے ایک رشتے دار کی قسم کھا کر یہ جتانے کے بعد کہ اس قیمت میں چپل اسے گھر پر بھی نہیں پڑتی اپنی پہلے بتائی ہوئی قیمت سے کوئی پندرہ بیس روپے کم کر دیتا۔
کوئی پون گھنٹے کی تکرار کے بعد آخر سودا چارسو روپے میں طے ہو گیا اور گاہک چپل لے کر چلا گیا۔
میں نے جھگڑ ے کو نمٹتا دیکھا تو خیال آیا کہ مجھے آج کے دن میں چپل خریدنے کے علاوہ بھی کچھ کام کرنے ہیں۔ وقت اس بحث کو سننے میں پہلے ہی کافی ضائع ہو چکا تھا اور اس دکان پر چپلوں کی کوئی خاص ورائٹی بھی موجود نہیں تھی اس لیے میں نے بھی اسی طرح کی ایک چپل خرید لینے کا فیصلہ کیا جس پر ابھی بحث ہو رہی تھی۔
اپنے سائز کی چپل نکلوائی اور اسے پیک کرنے کا کہہ کر جیب سے چار سو روپے نکال کر دکان دار کے ہاتھ میں تھما دیے۔ چپل پلاسٹک کے ایک لفافے میں ڈالنے کے بعد مجھے تھما کر میرے ہاتھ سے پیسے لیے تو گن کر کہنے لگا کہ یہ پیسے کم ہیں، اس چپل کی قیمت نو سو روپے ہے۔
میں نے کہا کہ ابھی میرے کھڑے کھڑے تو تم نے یہی چپل اس آدمی کو چار سو روپے میں دی ہے۔ دکاندار نے میری بات سن کر کہا کہ اچھا اگر تم نے بھی یہ چپل چار سو روپے میں لینی ہے تو چلو وہیں سے شروع کرو۔
کافی حیل و حجت کے بعد بھی جب وہ سیدھے سیدھے چار سو روپے میں چپل دینے پر تیار نہ ہوا تو میں نے وہی نوے روپے سے ایکسرسائز شروع کی اور یہی کوئی آدھ پون گھنٹے میں وہ چپل چار سو روپے میں خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔
چپل پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد میں نے یونہی دکاندار سے پوچھا کی جب تم نے چپل چار سو روپے میں دے ہی دینی تھی تواس کی قیمت نو سو سے شروع کرنے کا کیا فائدہ ہے تو دکان دار نے اپنا کاروباری راز فاش کرتے ہوئی یہ انکشاف کیا کہ اول تو میرے استاد نے مجھے چپل بیچنے کا یہی طریقہ سکھایا ہے اور دوسر ے اگر میں یہ چپل چار سو کی بتاتا تو وہ ایک آدھی بات کر کے چپل لیتا اور چلا جاتا. اب اگر میں سب کو یونہی چار سو کہہ کر ایک ایک منٹ میں بھگتاتا رہوں تو سارا دن کس طرح گزاروں۔
مجھے اپنے استاد کی نصیحت پر حرف بہ حرف عمل کرنے والا وہ دکاندار اس وقت بہت یاد آیا جب میں ٹی وی پر کینیڈا سے بزنس کلاس میں آنے والے مولانا انقلاب کی آمد، ان کے مطالبات کی فہرست اور چھ گھنٹے کے مذاکرات کے دوران اس فہرست میں آنے والی تبدیلی دیکھ رہا تھا۔
مولانا القادری نے جب پچھلی بار انقلاب کا کنٹینر برآمد کیا تھا تب گاہک کوئی اور تھا لیکن مولانا کی سیلز سٹریٹیجی یہی تھی جو انہوں نے اس بار اپنائی؛
آج اس حکومت کی آخری رات ہے! میں ایک گھنٹے کا الٹیمیٹم دے رہا ہوں۔ نظام بدلے بغیر میں اپنے کنٹینر سے نہیں نکلوں گا! مبارک ہو مبارک ہو عدالت نے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا! کل صبح ہماری فتح کا سورج طلوع ہوگا!
لیکن جب ساری سودے بازی کے بعد بھی چپل نہیں بکی تو مولانا مذاکرات کے عوض اپنا چھابڑا اٹھا کر لاہور چل دیے۔
اس بار انقلاب امارات ائرلائنز کی بزنس کلاس میں آ رہا تھا لیکن دعووں اور مطالبوں کی گھن گرج وہی کنٹینر والی تھی؛
انقلاب آ رہا ہے! میرے پہنچتے ہی انقلاب آ جائے گا! فوج ائر پورٹ کا کنٹرول سنبھال لے! جہاز کو واپس اسلام آباد لے جایا جائے نہیں تو میں نہیں اتروں گا! کور کمانڈر یہاں آ کر مجھے حفاظت کی ضمانت دے!
اچھا فوج نہیں تو میرے ذاتی محافظوں کو اندر آنے دیا جائے۔ میں گورنر صاحب کی گاڑی میں جاؤں گا۔ اچھا یہ نہیں تو مجھے بلٹ پروف گاڑی دی جائے۔ یہ بھی نہیں تو میری گاڑی کو رن وے تک آنے کی اجازت دی جائے۔
اور اور اور… اور پھر انقلاب کا چھابہ غائب! فرق اس بار میں صرف اتنا تھا کہ پچھلی بار حکومت کے دکان بڑھانے کا وقت نزدیک تھا اس لیے کئی بار لگا کہ سودا اب پٹا کہ تب پٹا لیکن اس بار دکان بند ہونے کی خبریں پھیلانے والے تو بہت تھے لیکن بازار لگے ابھی وقت اتنا نہیں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس بار مولانا کی سودے بازی کی صلاحیتوں کا سب کو علم ہو چکا تھا اس لیے دلچسپی چپل میں کم اور بارگیننگ میں زیادہ تھی۔
حسب توقع مولانا نے پرانے داموں سودا کر لیا اور خیر سے انقلاب ابھی کے لیے ملتوی ہو گیا، لیکن اس تنبیہہ کے ساتھ کہ اب کے مولانا جو کال دیں گے وہ آخری ہوگی۔
سوال تو اس سودے بازی کے بارے میں بہت سے ہیں لیکن میں مولانا سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انہیں وقت گزارنے کا کوئی اور طریقہ نہیں آتا یا ان کے استاد نے انہیں چپل بیچنا ہی ایسے سکھایا ہے۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔