پاکستان

طاہر القادری سے کون خوفزدہ ہے؟

بہت سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر مسلم لیگ نون ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دے رہی ہے؟

راولپنڈی/اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ نون نے ڈاکٹر طاہر القادری کے حکومت مخالف احتجاج پر جو ردّعمل ظاہر کیا ہے، وہ جارحانہ اور نامناسب ہوتا جارہا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہورہا ہے کہ حکومت خود کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہے۔ چنانچہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران حکومتی اقدامات کی وجہ سے طاہر القادری تمام تر توجہ اپنی جانب مرکوز کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان جنہوں نے پیر کے روز کے پلان پر حکومتی نمائندوں سے بات چیت کی تھی، آخر کیوں انہیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جب ان کے کارکنان اپنے رہنما کی واپسی پر ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر اکھٹا ہوں گے تو امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہوگی۔

پی اے ٹی کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ان کے لوگوں کو کیوں گرفتار کیا گیا، جب کہ انہوں نے انتظامیہ کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے استقبالیہ ریلی سے امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔

پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان غلام خان نے ڈان کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پچھلے ہفتے ایک میٹنگ کے بہانے سے پارٹی کے رہنماؤں کو جال میں پھانسنے کی کوشش کی گئی تھی۔

غلام خان نے کہا ’’ہفتے کی شام چھ بجے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے ہمارے عہدے داروں طارق محمود، احمد نواز انجم، منصور خان اور سات دیگر لوگوں کو اس ریلی کے مقام کا فیصلہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ لیکن ان سے بات کرنے کے بعد وہ آدھی رات تک ان کا انتظار کرتے رہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ایک جلد ہی ایک حتمی فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہمیں اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے بجائے، انتظامیہ نے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ ان کے ساتھ اتوار کی صبح سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔‘‘

لیکن حکمران جماعت کی ضد برقرار ہے اور اس کا اصرار ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہیٔے۔

مسلم لیگ نون کے رکن اسمبلی ملک ابرار نے کہا کہ ریلی کے مقام کوروات یا گجر خان منتقل کرنے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کی پیشکش پی ٹی اے کو قبول کرلینی چاہیٔے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر انہوں نے قبول کرلیا تھا، تو انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

انہوں نے بے نیازی کے ساتھ اس گرفتاری کے بارے میں کہا کہ خود ان کی پارٹی کے کارکنوں کو ماضی میں کئی مرتبہ حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔

راولپنڈی کے ضلعی رابطہ افسر ساجد ظفر نےپنجاب کے محکمۂ داخلہ کو ارسال کیے گئے ایک خط میں بیان کیا ہے کہ ضلعی پولیس نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے باہراجتماع کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس نہیں دی تھی، جس کی وجہ سے ریلی کے لیے پی اے ٹی کی درخواست کو مسترد کردیا گیا تھا۔

اس ردّعمل کے تناظر میں بہت سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر مسلم لیگ نون ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دے رہی ہے، جو کہ نہ تو ایک اہم اور مرکزی دھارے میں شامل جماعت بھی نہیں ہے اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی اس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

کچھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکمران جماعت کی جانب سے اس معاملے کے ساتھ اناڑی پن سے نمٹنا پاکستان عوامی تحریک کے لیے مددگار ثابت ہورہا ہے اور لاہور سانحے کے بعد ڈاکٹر قادری کی جماعت کے لیے ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوگئی تھی۔

مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے قادری کی ریلیوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

نون لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے ڈان کو بتایا ’’ہم پی اے ٹی یا اس کے لیڈر سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہم صرف معیشت کا تحفظ چاہتے ہیں۔ گیارہ مئی کو اسلام آباد میں عمران خان کی ریلی کے دوران ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئی تھیں، اس لیے کہ سرمایہ کاروں کو ملک میں کسی بڑی تبدیلی کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال بھی پی اے ٹی کے دھرنے کی وجہ سے معیشت پر اسی طرح کے اثرات مرتب ہوئے تھے اور سینکڑوں کوتحفظ فراہم کرنا انتظامیہ کے لیے انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔

حنیف عباسی نے تسلیم کیا کہ سانحہ لاہور کو ٹالا جاسکتا تھا، اور بگڑتی ہوئی صورتحال سے بہتر طریقے سے نمٹا جاسکتا تھا۔ تاہم انہوں نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس معاملے میں ملؤث پولیس افسران صرف حکومت سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔‘‘

مسلم لیگ نون کے رہنما ملک شکیل اعوان نے کہا کہ پی اے ٹی ریلیوں اور غیر اہم مسائل پر دھرنے دے کر حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت لوگوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈال کر اس طرح کے پروگراموں کی اجازت نہیں دے سکتی۔

ملک شکیل اعوان نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے بعد سے بڑے عوامی اجتماعات کے لیے دہشت گردی کےخطرات ہیں، اور بعض سیاسی اداکار اس صورتحال کافائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ نون راولپنڈی سٹی کے صدر سردار نسیم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کسی اور کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ نون کی سینئر قیادت اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ حکومت طاہر القادری کی احتجاجی تحریک سے درپیش خطرے سے ڈر کر یہ ردّعمل ظاہر کررہی ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے ڈان کو بتایا ’’ہمیں عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک یقینی خطرے کا سامنا ہے، جو پلٹ کر حملہ کرنے کا کوئی بھی موقع تلاش کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یہاں ایسے درجنوں گروپس ہیں جو ایک انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ایک گروپ کو دھرنے کی اجازت دے دیتے ہیں تو کل ہر ایک اپنے ایجنڈے پر اسی طرح نکلنا چاہے گا۔

مسلم لیگ نون کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد حکومت اسلام آباد ایئرپورٹ پر بڑے اجتماع کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی احتجاجی تحریک کی کوریج کے لیے میڈیا کے پُرجوش ہونے پر بھی تنقید کی۔