نقطہ نظر

جب "لارڈز کا بھوت" دفنا دیا گیا

سال 1999ء، پاکستان کرکٹ اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ وسیم اکرم کی زیر قیادت دنیا کے بہترین کھلاڑی سبز ہلالی پرچم تلے جمع تھے۔

سال 1999ء، پاکستان کرکٹ اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ وسیم اکرم کی زیر قیادت دنیا کے بہترین کھلاڑی سبز ہلالی پرچم تلے جمع تھے۔ شاہد آفریدی، اظہر محمود اور عبد الرزاق جیسے آل راؤنڈر، سعید انور اور انضمام الحق جیسے بیٹسمین، ثقلین مشتاق جیسا اسپنر، معین خان جیسا وکٹ کیپر اور وسیم اکرم کا ساتھ دینے کے لیے شعیب اختر جیسا باؤلر جس ٹیم میں موجود ہو، اسے جیتنے سے بھلا کون روک سکتا تھا؟ اسی لیے جب ورلڈ کپ1999ء شروع ہوا تو سب کی نظریں پاکستان پر تھیں۔

جارحانہ بیٹنگ اور برق رفتار سوئنگ باؤلنگ انگلینڈ کی کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ پھر ہندوستان، جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے باوجود پاکستان اہم مقابلے جیتتا ہوا فائنل تک پہنچ گیا۔ اس مرحلے تک پہنچنے میں ہر کھلاڑی کا کردار کلیدی تھا، سیمی فائنل میں شعیب اختر کی تباہ کن باؤلنگ، آسٹریلیا کے خلاف اہم گروپ میچ میں انضمام الحق کی شاندار بیٹنگ اور زمبابوے کے خلاف 'مارو یا مر جاؤ' والے مقابلے میں ثقلین مشتاق کی ہیٹ ٹرک، یہ تمام کوششیں پاکستان کو فائنل تک لے آئیں۔

فائنل سے قبل ہی وطن عزیز میں جشن کا سماں تھا۔ آج بھی اس وقت کی یادیں کئی ذہنوں میں تازہ ہوں گی کہفائنل کےدن کے لیے کیا کیا تیاریاں کی گئی تھیں۔ اخباروں کے خصوصی ضمیمے ظاہر کررہی تھیں کہ کسی کے ذہن میں تو شکست کا تصور تک نہیں۔ اخباری سرخیاں پکارتی دکھائی دیتی تھیں کہ فائنل محض ایک رسمی کارروائی ہوگا، پاکستان تو ورلڈ چیمپئن بن چکا۔ عام نوجوان سوچ رہے تھے کہ آسٹریلیا کو تو گروپ میچ میں بھی ہرا چکے ہیں، یعنی فائنل میں وہ پلیٹ میں رکھ کر میچ پیش کردے گا۔ پھر، 20 جون 1999ء کا دن آیا، خوابوں کو چکناچور کرنے، امیدوں کو توڑنے اور تمناؤں کو خاک میں ملانے والا دن۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے اور صرف 132 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ آسٹریلیا دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ اسٹیو واہ، رکی پونٹنگ، شین وارن اور دیگر آسٹریلوی کھلاڑیوں کے خوشی سے دمکتے ہوئے اور وسیم اکرم اور معین خان کے شرمندگی سے جھکے ہوئے چہرے آج بھی یاد ہیں۔

جو شائقین کرکٹ 1996ء کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں بھارت کے خلاف شکست کو بھول چکے تھے، انہیں اپنے پرانے زخم تازہ ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ عالمی چیمپئن بننے کے اتنا قریب پہنچ جانے کے بعد بھی محرومی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ پھر کرکٹ سے برگشتہ ہوجانے والی نسل سامنے آئی۔ 99ء گزیدہ کرکٹ پرستاروں کی ایک بڑی تعداد آج بھی آپ کو اپنے اردگرد نظر آئے گی ، جن کا اوڑھنا بچھونا بھی کرکٹ تھا، لیکن اس میچ کے بعد انہوں نے کرکٹ کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیا، اس کی حیثیت محض کھیل تماشے کی سی رہ گئی۔

اس غم کی شدت کو سب سے زيادہ کس نے محسوس کیا ہوگا؟ بلاشبہ ان کھلاڑیوں نے جو اس دن لارڈز کے میدان میں موجود تھے۔ ایک کے بعد ایک کھلاڑی عالمی چیمپئن بننے کے خواب کو ادھورا چھوڑ کر کرکٹ کو خیرباد کہتا رہا، یہاں تک کہ 10 سال کا عرصہ بیت گیا اور شکست کے اس داغ کو دھونے کا موقع صرف دو کھلاڑیوں کو ملا۔ جب 21 جون 2009ء کو، لارڈز کے اسی میدان پر شاہد خان آفریدی اور عبد الرزاق ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پاک-لنکا فائنل میں کھیلنے کے لیے اترے، ماضی کی مایوس کن یادوں سے چھٹکارہ پانے اور 'لارڈز کے بھوت' کو ہمیشہ کے لیے دفنانے کی خاطر۔

کرکٹ کا گھر کہلانے والا "لارڈز"اس مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے فائنل کا میزبان تھا۔ پاکستان جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کو سیمی فائنل میں شکست دے کر یہاں پہنچا تھا۔ جبکہ پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے والے سری لنکا نے اپنے بہترین بلے بازوں کے بل بوتے پر اس مقام تک رسائی حاصل کی تھی۔ اندازہ لگائیے کہ تلکارتنے دلشان صرف 6 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 317 رنز جوڑ چکے تھے اور دنیا کا کوئی باؤلر انہیں روکتا نہ دکھائی دیتا تھا ۔ لیکن فائنل میں جب محمد عامر کی باؤلنگ نے انہیں صفر پر چلتا کیا تو اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بننے کے حتمی مرحلے کا "خوابناک سفر" شروع ہوا۔

دوسرے اینڈ سے آخری لمحات میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اسکواڈ میں شامل کیے جانے والے عبد الرزاق 10 سال پرانی کسریں نکالنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے مسلسل تین اوورز میں سری لنکا کی تین وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو بالادست مقام تک پہنچا دیا۔ صرف 32 رنز پر سری لنکا کے 4 کھلاڑی آؤٹ تھے اور کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کی تمام تر کوششیں بھی ان کی اننگز کو نہ سنبھال سکیں۔ جب 20 اوورز مکمل ہوئے تو اسکور بورڈ پر صرف 138 رنز موجود تھے۔

پاکستان کے اوپنرز شاہزیب حسن اور کامران اکمل نے 48 رنز کا بہترین آغاز فراہم کیا اور جب 63 رنز تک پہنچتے پہنچتے دونوں اوپنرز پویلین لوٹ چکے تھے تو ذمہ داری شاہد آفریدی اور شعیب ملک نے سنبھالی۔ وہی شاہد آفریدی جو ٹھیک 10 سال قبل اسی میدان پر آسٹریلیاکے خلاف صرف 13 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تھے، آج بالکل مختلف موڈ میں تھے۔ 40 گیندوں پر 54 رنز کی اننگز، جس میں ٹورنامنٹ کو دو سب سے خوبصورت چھکے بھی شامل تھے، نے 'لارڈز کے بھوت' کے تابوت کے لیے کیلیں جمع کیں اور بالآخر 19 ویں اوور میں پاکستان ہدف کو پہنچ گیا۔

عوام کے سالوں سے دبے ارمان امنڈ آئے، اسلام آباد کی شاہراہوں سے لے کر کراچی کی سڑکوں تک، لاہور کی گلیوں کوچوں سے لے کر کوئٹہ کی وادیوں تک، گوادر کے ساحل سے لے کر گلگت کے کوہساروں تک،ایک عظیم جشن برپا تھا۔ بات بے بات اختلاف کرنے والی قوم کرکٹ کے جھنڈے تلے ایک ہوگئی اور "لارڈز کا بھوت" ہمیشہ کے لیے دفنا دیا گیا۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔