ایئر پورٹ پر حملہ کیوں؟
جناح انڑنیشنل ایئر پورٹ پر غیر معمولی حملہ کرکے، پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک تین اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا-
پہلا، اس خیال کو غلط ثابت کرنا کہ اس کی حملے کرنے کی صلاحیت آپس کی جنگوں اور تحریک طالبان میں آپس میں تفرقہ کی وجہ سے کمزور پڑ گئی ہے، جو سجنا گروپ کے طالبان سے علیحدہ ہوجانے کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے-
دوسری بات یہ کہ، یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ کراچی جو پاکستانی معیشت کا مرکز ہے اس کو پانچ گھنٹے تک مفلوج کرکے پاکستان کی معیشت کی کمر توڑنے کی اس میں صلاحیت ہے-
تیسرے یہ کہ، اتنے بڑے پیمانے پر حملہ کرکے خبروں کی سرخیوں میں رہ سکتا ہے تاکہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دے سکے کہ پاکستان سرمایہ کاروں کیلئے محفوظ مقام نہیں ہے-
دہشت گردی کے نیٹ ورک نے حملے کے دوسرے دن ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کی تنصیبات پر اس وقت حملہ کیا جب پاکستان کے سیاسی اور سیکیورٹی ادارے سیکیورٹی افواج کی بہادری اور جان بازی کی تعریف میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قلابے ملا رہے تھے- اس دوسرے حملہ کے ذریعے، شاید یہ بتانا مقصود تھا کہ پہلا حملہ تنگ آکر کی گئی کوئی کارروائی نہیں تھا بلکہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے تھا-
اس بات کی کئی وجوہات ہیں کہ دہشت گرد ایئر پورٹ پر حملہ کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کیونکر کامیاب ہوگئے بلکہ ہمارے اس حال کو پہنچنے کی وجہ سمجھنے کیلئے چند گذارشات ہیں جو بے حد اہم ہیں-
دہشت گردی کے خلاف ایک مکمل اور مربوط پالیسی اور اس کے نفاذ کے میکانزم کی غیر موجودگی کی وجہ سے نئے منتخب شدہ وزیراعظم نے ستمبر 2013ء میں ایک کل جماعتی کانفرنس (APC) بلائی تھی- اس اے پی سی نے حکومت کو"تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ بات کرنے کا اختیار" دیا تھا-
وزیرداخلہ نے سیکیورٹی پالیسی کے نفاذ میں مسلسل تاخیری حربے استعمال کئے- اس دوران میں، داخلی سیکیورٹی کے معاملات کی ذمہ داری کیبنیٹ کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی کو سونپ دی گئی، اور پارلیمنٹ کو بھی ان سے متعلق معاملات پر کوئی اختیار نہیں رہا-
چونکہ ایک مکمل داخلی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان مسلسل موخر ہوتا رہا، اور حکومت پنجاب کے قومی سطح کے مسائل میں الجھی رہی- خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ اس دوران متواتر پرتشدد حملوں کا نشانہ بنتے رہے- ان صوبوں میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگیٹڈ اموات کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے-
کئی درجن سیاسی کارکن، تاجر حضرات، امن کے سرگرم کارکن اور این جی اوز کے افسران تو صرف خیبر پختونخوا میں گذشتہ ڈیڑھ سالوں میں نشانہ بنائے گئے- بھتہ خوروں نے صرف پشاور میں اربوں روپے وصول کئے-
جس زمانے میں ٹی ٹی پی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے کے بارے میں گفت وشنید ہو رہی تھی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ایک کنارے کھڑا کر دیا گیا تھا اور حکومت کو عملاً تنہا کرکے سیاسی اور سیکیورٹی اداروں کے ماتحت عمل کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا-
ان تمام عوامل نے غالباً سی سی این ایس کو قائل کردیا تھا کہ تشدد پسند گروہوں کو کمزور کرنے کیلئے انہیں آپس میں لڑا دیا جائے، وہی بار بار دہرائی ہوئی پالیسی جو لازماً ناکام ہونا تھی-
اس دوران میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت نے تشدد پسندوں کی جانب ایک نہایت نرم روی کا مربیانہ رویہ نہ صرف اپنایا بلکہ اے پی سی نے انہیں 'اسٹیک ہولڈرز' کا نیا نام دیا اور کچھ ایسے سیاسی اقدام بھی کیئے جن سے تشدد پسندوں کا ہر کام جائز ہوگیا-
نتیجہ یہ کہ دہشتگردی کا نیٹ ورک کراچی، پشاور اور اس کے اطراف میں اور پاکستان میں دوسرے مقامات پر مکمل طور پر مستحکم اور طاقتور ہوتا گیا، خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیروں کی تقریروں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے وکیل ہیں جنہوں نے ان کے ہر عمل کو حق بجانب قرار دینے کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے-
پی ٹی آئی نے نہ صرف ان کو پشاور میں آفس کھولنے کی پیشکش کی بلکہ ان کے ایک پرانے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ پر ڈرون حملے بند کروانے کیلئے دباؤ بھی ڈالا- اس کے نتیجے میں تشدد پسندوں کو ایک کھلا میدان مل گیا کہ وہ اپنے لیڈر حکیم اللہ محسود کی موت کے بعد اپنے رضاکار آزادی سے بھرتی کریں، سرمایہ اکٹھا کریں اور اپنے ادارے کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کیلئے کام کریں-
اسے اس کا بھی موقع مل گیا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر عوامی بحث میں حصہ لیکر عوامی تائید جو کافی کم ہوگئی تھی اسے دوبارہ حاصل کرلیں- اس دوران میں، 'دفاع پاکستان کونسل' جو سلفی جہادیوں، پنج پیریوں، حقانیوں اور پرانے جاسوسی اداروں کے کرتا دھرتاؤں کا ملا جلا اتحاد تھا اسے بہت زیادہ فعال ہونے کا موقع مل گیا-
دفاع پاکستان کونسل نے پورے پاکستان میں بڑی بڑی ریلیاں اور عوامی اجتماعات منعقد کر کے مطالبے کئے کہ تشدد پسندوں کے نیٹ ورک کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا جائے، بلکہ انہوں نے اس بات کو اپنا مشن بنا لیا کہ پاکستان کے وجود کو جو خطرات ہیں اس کے سارے جوابات ان کے پاس ہیں-
اس کے بعد جب آخرکار فروری میں، داخلی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان ہوا، اور تجزیہ کاروں اور سیاسی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم کیا، حالانکہ ابھی یہ پوری طرح کار آمد بھی نہیں تھی اور نہ پارلیمنٹ کو اس کا پورا ادراک تھا کہ ہو کیا رہا ہے پھر بھی یہ صحیح سمت میں ایک قدم تھا- اس پالیسی نے نیشنل کاونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) کو از سر نو نئی زندگی دینے کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کیا- جو دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی، انٹیلیجنس، سیکیورٹی اور اسٹراٹیجک اقدامات اٹھائے گی- لیکن افسوس کہ NACTA ابھی تک سرد خانے میں ہے-
اب یہ سیاسی اور سیکیورٹی اداروں کا کام ہے کہ وہ علاقائی تعاون کی کوشش کریں، تشدد پسندی کے طریقے کو چھوڑیں، یکساں، مربوط، پیوستہ اور شفاف پالیسی نافذ کریں جو پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ کا سدباب کرے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری