میں کسی گلّو یا اُلّو بٹ کو نہیں جانتا: اسحاق ڈار
اسلام آباد: کل بروز بدھ قومی اسمبلی کے اندر بجٹ کے حکومتی مطالبات پر رائے شماری کا دن تھا، لیکن لاہور کا گلّو بٹ اس اجلاس کے پہلے سیشن پر چھایا رہا۔
کچھ اراکین قومی اسمبلی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق حزبِ اختلاف سے تھا، کھڑے ہوگئے اور حکمران جماعت مسلم لیگ سے گلّو بٹ کی شناخت ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دن لاہور میں علامہ طاہر القادری کے پیروکاروں پر ان کے منہاج القرآن سیکریٹیریٹ پر پولیس کے خونی حملے کے ٹیلیویژن چینلز کی ریکارڈ کی گئی وڈیوز میں دوران یہ شخص نجی کاروں کو تباہ کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔
جیسے ہی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار گرانٹ کے لیے کیے گئے مطالبات کی رسمی منظوری حاصل کرنے کے لیے تیار ہوئے، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی تین خواتین اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑی ہوگئیں اور حکومتی بنچوں سے یہ مطالبہ کیا کہ یہ بتایا جائے کہ کیا گلّو بٹ مسلم لیگ نون کا ایک کارکن تھا، جیسا کہ اس کے بارے میں شک ظاہر کیا جارہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری، پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور شازیہ مری نے ہم آواز ہوکر گلو بٹ کے بارے میں سوالات اُٹھائے، جسے میڈیا نے اپنی رپورٹ میں مسلم لیگ نون کا ایک مقامی عہدے دار بتایا تھا۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ اس موقع پر حکومت سے کہا کہ وہ لاہور کے واقعے اور گلّو بٹ کے سلسلے میں اپنا مؤقف واضح کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ آج کے اخبارات کے شہہ سرخیوں سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ جیسے شمالی وزیرستان سے جنگ کا میدان لاہور میں منتقل ہوگیا ہے، جہاں پولیس نے دن دہاڑے لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔
سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاستدان نفیسہ شاہ نے کہا کہ اگر قومی سلامتی میں اضافے کے لیے حکومت کی یہ منصوبہ بندی تھی، تو پھر بجٹ میں حکومت نے سیکیورٹی کے نام پر جو رقم مختص کی ہے، حزب اختلاف کی جانب سے اس میں کٹوتی کا مطالبہ درست تھا۔
مگر انہیں اس وقت تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گلّو بٹ کے بارے میں اپنا بیان جاری کرے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے دعویٰ کیا کہ گلّو بٹ نے نجی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ صوبائی حکومت کی ہدایات پر کی تھیں۔
شیریں مزاری کو بھی اسپیکر کی جانب سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
وہ حکومت کے کچھ وزراء سے گلّو بٹ کے بارے میں ایک بیان چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان کو گلّو بٹ کے بارے میں مطلع کیا جانا چاہیٔے۔
راولپنڈی کے شیخ رشید نے لاہور کے واقعہ کا موازنہ برطانوی راج میں مشہور جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے کیا، جب برطانوی فوج نے امرتسر میں 1919ء کے دوران پُرامن مظاہرین پر فائر کھول دیا تھا۔
شیخ رشید کے مطابق اس وقت حکومت پنجاب سے ایک بڑا جرم سرزد ہوا ہے، جس سے کو خواہش کے باوجود دور ہٹنے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔
ایبٹ آباد سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون نے ایوان کو آگاہ کیا کہ کس طرح ان کے خاندان کے ایک بچے نے گلّو بٹ کے بارے میں سوال کرکے انہیں حیران کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’’اس بچے نے مجھ سے پوچھا کہ کیا قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے کیا میں گلّو بٹ سے زیادہ طاقتور ہوں، اور صاف بات یہ ہے کہ میرے پاس اس معصوم کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘
اظہر خان جدون نے خبردار کیا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو اگلی نسل ملک کے قانون کی پیروی کرنے والے شہریوں کے مقابلے میں گلّوبٹ کو زیادہ پسند کرے گی۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے اس کے ردّعمل میں برہمی کے ساتھ جواب دیا ، انہوں نے کہا کہ اوّل تو حکومت پنجاب نے ایک عدالتی کمیشن اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کردیا ہے، لہٰذا ایوان میں موجود قانون سازوں کو اس کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیٔے۔
انہوں نے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ یہ گلّو یا اُلّو بٹ کون ہے، جب عدالتی تحقیقات جاری ہیں، تو ہر ایک کو اس کے نتائج کے لیے انتظار کرنا چاہیٔے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی نے اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اس اجلاس میں شرکت کی۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم نے لاہور کے واقعےپر احتجاج کرتے ہوئے اس دن کو بطور یومِ سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔
معمول کے دنوں کے برعکس، بدھ کے روز قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی مرکزی نشستیں خالی رہیں، اس لیے کہ پی ٹی آئی کی قیادت پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے لاہور میں موجود تھی۔
گلّو بٹ اب محفوظ ہاتھوں میں ہے:
شیرلاہور کے نام سے معروف گلّو بٹ کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔ گلّو بٹ کو رائے ونڈ روڈ پر کسی جگہ رکھا گیا ہے۔
قانون کے تحت تو اس کو فیصل ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں بند کیا جانا چاہیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس پر لاک اپ میں لوگ حملہ کرسکتے ہیں، اس لیے اس کو کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔
فیصل ٹاؤن کے پولیس اسٹیشن انچارج ثناءاللہ اور تفتیشی افسر رفیق نے گلّو بٹ کی گرفتاری کی تردید کی ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعلٰی شہباز شریف نے گلّو بٹ کی گرفتاری کی انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ہدایت کی تھی ۔