نقطہ نظر

پاکستانی آزادی صحافت

اگر یہی حال رہا تو بہت جلد عام لوگوں کا اعتماد صحافت سے مکمل طور پر اُٹھ جائے گا جو جزوی طور پر پہلے ہی اُٹھ چکا ہے۔

جدید صحافت میں ایک اصطلاح "گیٹ کیپر" استعمال ہوتی ہے جس کے ذمّے اُن خبروں کو روکنا ہوتا ہے جن سے معاشرے پر منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہو۔ یہ انتہائی اہم ذمہ داری ہے اور اسے معاشرتی اتار چڑھاؤ اور مزاج سے واقف شخص ہی سر انجام دے سکتا ہے۔

گیٹ کیپر ایک ہلکا لفظ ہے، شاید اسی لیے اہم ہونے کے باوجود پاکستان کا کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ اسے اپنے اوپر چسپاں کرنا توہین صحافت سمجھتا ہے۔ صحیح علم تو نہیں مگر لگتا یہی ہے کہ پاکستان میں اس عہدہ پر کوئی صحافی فائز نہیں ہے.

مطلق العنانی چونکہ ہمارے ہاں عام ہے لہٰذا اس کا نتیجہ بھی اکثر نکلتا رہتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی صحافتی ادارے کا مالک ایک خبر کو عام کرنا چاہے اور گیٹ کیپر اسے یہ کہہ کر رد کر دے کہ یہ معاشرے کے لیے مناسب نہیں۔

صحافتی اداروں میں اس قسم کی پالیسی کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو ہم نے پچھلے دنوں دیکھ ہیں۔ باقی دنیا کی بات نہیں کرتے مگر وطن عزیز میں آزادی صحافت کا حقیقی مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ صحافی برادری کو اس بات کے کُلی اختیارات حاصل ہوں کہ وہ سرعام کسی کا بھی پائجامہ ڈھیلا کر سکیں۔

اختلاف رائے رکھنا زندہ معاشروں کی پہچان ہے مگر کسی بھی فرد یا ادارے کا محض اُسے رسوا کرنے کے لیے پیچھا کرنا مناسب عمل نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں میڈیا کو محض کسی کے خلاف یا حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

گو میڈیا کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا اور اطلاع دینا ہی ہے مگر انہیں اپنے معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میڈیا لوگوں کو آگاہ تو کر سکتا ہے انہیں سمت تو دکھا سکتا ہے مگر فیصلہ خود نہیں کر سکتا اور نہ ہی اُسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ لوگوں کو وہی سمت دکھائے جو وہ دکھانا چاہتا ہے یا دُوسرے لفظوں میں وہ سمت جس کا اُس نے سودا طے کر رکھا ہو۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ تمام میڈیا ایسا نہیں ہے مگر زیادہ تر ایسا ہی ہے۔

پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ملک ہے۔ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں مگر پاکستانی صحافت میں کرپشن اور غیر ذمہ داری کے اعداد و شمار آج تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد عام لوگوں کا اعتماد صحافت سے مکمل طور پر اُٹھ جائے گا جو جزوی طور پر پہلے ہی اُٹھ چکا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ لوگوں کی راہنمائی کا حق صرف اُسی کو حاصل ہے کہ جس کا اپنا دامن مکمل صاف ہو، غلطی ہو سکتی ہے مگر غلطی کو بار بار دہرانا غلطی شمار نہیں کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندیاں ضرور رہی ہیں مگر گزشتہ عشرے سے ملنے والی آزادی کو ہمارے میڈیا نے جس طرح "کیش" کرانے کی کوشش کی ہے وہ چند الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

اُدھر صحافت جن اداروں یا افراد کے خلاف صف آرا ہے اُن کا بھی اللہ ہی حافظ ہے مگر یہاں اُن پر بات کرنے سے بات لمبی ہو جائے گی۔ صحافت کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں محض یہی کہوں گا کہ پاکستانی صحافت پہلے اپنا قبلہ درست کر لے پھر دُوسروں کا گریبان چاک کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ کسی ایک چیتھڑے اخبار کا مالک بھی جامے میں نہیں سماتا، کُجا کسی بڑے اخبار کا مالک کسی کے کہنے سننے میں آئے۔

اس ساری صورتحال کا حل بہرحال تمام صحافتی اداروں کو تلاش کرنا اور اُس پر عمل کرنا ہو گا۔ صحافت ایک فن ہونے کے ساتھ ساتھ پیشہ، تجارت اور ذمہ داری بھی ہے اور اس کے کچھ قواعد و ضوابط بھی ہیں جن پر اگر تو مروجہ صحافت عمل پیرا ہے تو پھر اُسے واویلا کرنے کا حق بھی ہے اور اس حق کی راہ میں مرنے والا شہید بھی ہے. لیکن اگر کوئی صحافت اور آزادی صحافت کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنا چاہے تو اُسے صحافی اور شہید نہیں بلکہ مجرم قرار دینا چاہیے۔

پاکستان میں صحافت کی کچھ ساکھ اب بھی باقی ہے چنانچہ اسے بہتر کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف ایک ہی کام کرنا ہو گا کہ قواعد و ضوابط اور صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھ کر صحافت اور لوگوں کی راہنمائی کی جائے ورنہ عوام کا ساتھ ہی چھوٹ گیا تو صحافت اور صحافتی اداروں کی نہ صرف عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی بلکہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج بھی ہو جائیں گے اور اس کے بعد اُن لوگوں کو بھی کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا جن کے خلاف آج صحافت عوام کے لئے صف آرا ہے۔

علی خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔