نقطہ نظر

دیر آید ... درست آید

برداشت کا دامن چھوٹا تو مذاکرات کا شوشہ بھی ٹوٹا. سر جڑے اور فیصلہ ہوگیا۔ وہی فیصلہ جو قوم کے دل کی آواز تھا۔

کہا، جی سنتے ہو۔؟

اثبات میں سر ہلایا، کچھ کہنا چاہا، لیکن موقع ہی نہیں دیا۔ اپنی ہی کہنی تھی سو پھر کہہ اٹھی۔

"کہا ضرب عضب کے بعد تو شاید امن ہوجائے گا۔۔۔؟؟"

ذو معنی ہنسی کیا آئی، لگا جیسے سب سمجھ آگیا۔۔۔

سوال بھی خود کیا تھا۔ جواب بھی خود لے آئی۔۔

"کہا، جو بیج بویا تھا، اس کے درخت پر تو اب بیج ہی بیج لدے ہیں۔ کون طے کرے گا کہ صرف بیجوں کی صفائی کرنی ہے یا درخت ہی اکھاڑنے ہوں گے؟

اس بات نے ماضی کے جھروکوں میں دھکیل دیا۔ جسم یہاں تھا لیکن ذہن کہیں اور۔ گہری سوچ میں ڈوبا تو بھٹو سے اقتدار کا تختہ چھیننے والے ضیا کا چہرہ سامنے آّگیا۔

پھر کیا کیا ہوا، سوچتے سوچتے خیالات بھی دھندلا گئے۔ خواب غفلت میں انتہا پسندی کی ابتدا دیکھی۔ انسانی بربادی نظر آئی تو دیکھا نہ گیا، سر کو جھٹکا اور اس دنیا میں واپسی ہوگئی۔

کہا، "کہاں کھو گئے؟"

جھنجلاہٹ میں جھنجلایا۔۔۔

دہشت گردوں کے نرغے میں گھرا دو ہزار آٹھ اور نو کا سوات یاد آیا اور معصوم لوگوں کو نجات دلانے کیلئے آپریشن راہ حق اور راہ راست بھی یاد آیا۔

کئی سال سے اب تک جاری خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں جاں بحق افراد کے لاشے اور ان کے لواحقین کی سسکسیوں نے آبدیدہ کردیا۔ شاید ان ہی سسکیوں نے عرش میں طلاطم پیدا کیا اور موجودہ حکومت کے سال بھر سے جاری مذاکرات کے پینترے نے پینترا بدلا۔

جی ایچ کیو، مہران بیس اور بنوں جیل پر حملہ بھی نا قابل فراموش تھا لیکن برداشت کے تابوت میں آخری کیل کراچی ایئرپورٹ پر حملے نے ٹھونک دی۔

برداشت کا دامن چھوٹا تو مذاکرات کا شوشہ بھی ٹوٹا. سر جڑے اور فیصلہ ہوگیا۔ وہی فیصلہ جو قوم کے دل کی آواز تھا۔ وہی قدم جسے اٹھانے کا مطالبہ زوروں پر تھا۔


لکھاری ڈان نیوز ٹی وی کے ایڈیٹر نیوز ہیں

زاہد مظہر

زاہد مظہر ڈان نیوز میں بطور ڈائرکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔