پاکستان

قبائلی جرگہ اور طالبان کے درمیان حکومتی ڈیڈلائن پر بات چیت

اس بات چیت کے نتیجے میں طالبان شوریٰ نے عسکریت پسندوں سے کہا ہے کہ وہ امن کے ساتھ رہیں یا علاقہ خالی کردیں۔

میرانشاہ: اتم زئی وزیر قبیلے کے عمائدین نے عسکریت پسندوں کی ایک منصوبہ بندی کونسل کے ساتھ اتوار کے روز یہاں ملاقات کی۔

اس ملاقات کے دوران علاقے سے عسکریت پسندوں کو بے دخل کرنے کے لیے مقامی قبائلیوں کو حکومت کی جانب سے دی گئی پندرہ دن کی ڈیڈلائن پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق حاجی شیر محمد کی قیادت میں ایک جرگہ، حافظ گل بہادر کی سربراہی میں مجاہدین شوریٰ کے ساتھ ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کرے گا۔

جس کے دوران گزشتہ چند دنوں میں علاقے سے غیر جنگجوؤں کی بے دخلی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات چیت کی جائے گی۔

یاد رہے کہ حکومت نے چھ جون کو پشاور کا دورہ کرنے والے ایک جرگے کو پندرہ دن کی حتمی تاریخ دی تھی۔ اس جرگے نے خیبر پختونخوا کے گورنر اور پشاور کے کورکمانڈر سے ملاقات کی تھی۔

بعد میں ان قبائلی عمائدین نے طالبان کونسل کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کیے تاکہ علاقے سے عسکریت پسندوں بشمول غیرملکیوں کی بے دخلی کے لیے انہیں ایک مشترکہ حکمت عملی پر قائل کیا جاسکے۔

حافظ گل بہادر کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد طالبان شوریٰ نے عسکریت پسندوں سے کہا کہ وہ امن کے ساتھ رہیں یا علاقہ خالی کردیں۔ شوریٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انہیں بدامنی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب انتظامیہ نے صبح سے شام تک مسلسل کرفیو کا نفاذ کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ ان اوقات کے دوران اس اقدام نے لوگوں کو نقل مکانی سے بھی روک دیا ہے۔

خوفزدہ قبائلی عوام سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی بمباری سے بچنے اور پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے میرانشاہ اور میرعلی میں اپنےگھروں پر مستقل قومی پرچم لہرا رہے ہیں۔

کم از کم 361 گھرانے جو چھ ہزار تین سو تینتالیس افراد پر مشتمل ہیں، تصادم سے بچنے کے لیے سرحد پار کرکے افغانستان جاچکے ہیں،اور انہیں افغان حکومت کی جانب سے رجسٹرڈ بھی کرلیا گیا ہے۔

اس علاقے کے پڑوس میں واقع افغان صوبے خوست کے گورنر عبدالجبار نے راشن اور پچاس ہزار افغانی کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے ، جو یہاں پناہ لینے والے قبائلی افراد کو فراہم کیے جائیں گے۔

ایک خاندان کو میرانشاہ سے خوست براستہ غلام خان لے جانے والے ایک مقامی ڈرائیور نے ڈان کو بتایا کہ گورنر خوست کی ہدایات پر مہاجرین کے لیے ایک کیمپ قائم کیا گیا ہے۔