شہریت اور اقلیت کا بیانیہ
یہ کوئی طویل مدت کا واقعہ نہیں، محض ایک نصف صدی کی کہانی ہے کہ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے شہری سماجی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہوتے تھے اِن رشتوں کے بنانے اور نبھانے میں کبھی کوئی عقیدہ حائل نہیں ہوا. پھر جیسے جیسے پاکستان شیر خوارگی سے لڑکپن اور لڑکپن سے نوجوانی کی طرف بڑھنے لگا یہ رشتے ہمارے گاوں کے مندر میں کھڑے بوڑھے برگد کی طرح اکھڑتے گئے۔
یہ سیاسی اور دفاعی عدم تحفظ کا احساس تھا یا پھر مقتدر طبقوں اور اداروں کے حقِ حکمرانی کے جواز کیلئے طریقہ واردات تھا، وجہ کچھ بھی ہو، دھرتی کی خوشبووں سے نامانوس بیانئے یا مخاطبے (ڈسکورس) نے جڑ پکڑنا شروع کردیا۔ اور آہستہ آہستہ سماجی اور ثقافتی تکثیری ساخت کا ایک ایک گانٹھ بکھرتا گیا۔
ویسے بیانیہ یا مخاطبہ (ڈسکورس) ایسے فکری تسلسل کو کہتے ہیں جو اجتماعی رویوں کی تشکیل بھی کرتا ہے اور سماج کے اندر سیاسی اختیار اور وسائل کی تقسیم کے پیمانے بھی متعین کرتا ہے۔
کوئی بھی بیانیہ فوالکلور، طنزو مزاح، تخلیقی ادب اور ترسیل کے ذرائع آلات کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غالب بیانئے کو فطری قانون کی حثیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس پر سوال اٹھانے کی ممانعت ایک قدر بن جاتی ہے۔
بات ہو رہی تھی اقلیت کے بیانئے کی۔ دھرتی کی تکثیری تاریخ کے بالکل برعکس اس بیانئے نے سند کی حثیت کیسے حاصل کرلی؟
یہ سوال گہری تحقیق کا متقاضی ہے مگر ذرا غور کرنے سے اس گنجلک عمل کے مختلف دھاگوں کا ایک ایک سرا الگ الگ پکڑا جاسکتا ہے۔
شہریت کی اقلیت میں تبدیلی کے بیانئے کا نمایاں دھاگہ ثقافتی ہے۔ دھرتی کی تکثیری تاریخ میں عیدین، نوروز، محرم کی عزا داری، کرسمس، عید میلاد النبی اور ہولی کا عقیدے کے امتیاز کے علی الرغم منانا عام سی بات تھی۔ گاوں یا محلے میں ہر کسی کا ان میں حصہ لینا محلے داری کا اہم حصہ سمجھا جاتا تھا۔ ساتھ ساتھ مختلف عقیدوں سے منسلک شہریوں کا ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شرکت ثقافت کا نمایاں پہلو ہوا کرتا تھا ۔عوامی مقامات مثلاُ پارکوں، کھیل کے میدانوں، حجروں، اوطاقوں اور ڈیروں میں گھل مل کر تفریحی اوقات بسر کرنا کسی بھی عقیدے کے ساتھ منسلک نہیں ہوا کرتا تھا۔
اقلیت کے بیانئے کے گنجلک دھاگے کا دوسرا سرا سماجی ہے۔ تعلمی اداروں، صحت اور علاج معالجے کے مقامات، مارکیٹ اور روزگار کی جگہوں اور سماجی رتبے کو عقیدے اور فقہی توجیہہ کے پیمانے پر ناپا نہیں جاتا تھا۔ ہر گاؤں اور شہر کے سکولوں، ہسپتالوں اور مارکیٹوں میں مختلف النوع عقیدوں کے لوگ مل جل کر پڑھتے، علاج کرواتے اور کام کیا کرتے تھے۔
اقلیت کے بیانئے کے گنجلک دھاگے کا تیسرا سرا سیاسی ہے۔ ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا چاہے منشور کچھ بھی ہو سیاسی عمل میں عقیدے کا امتیاز مفقود تھا۔ پاکستان کی خالق جماعت کا ایک بانی اسماعیلی آغا خانی تھا اور پاکستان کا پہلا وزیرِخارجہ احمدی تھا، جبکہ عدالتی روایات کی پاسداری کا ایک سرخیل جج ہندو تھا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے جذبات بلکل مجروح نہیں ہوتے تھے۔ لیکن جب دھرتی کی خوشبو میں گوندھا ہوا شہریت کا بیانیہ، اقلیت کے بیانئے میں تبدیل ہوا تو آج صورتِحال دیکھئے۔
خیبر ایجنسی کی واد ی تیراہ میں صدیوں سے رہنے والے سکھ برادری کے لوگوں کو جزیہ دینے پر مجبور کیا گیا پھر ان پر سماجی اور ثقافتی زندگی اتنی تنگ کر دی گئی کے ان کو وہاں سے مجبوراً اجتماعی طور پر دیس بدر ہونا پڑا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان بالخصوص سندھ سے پانچ ہزار ہندو ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی نژاد ماہر امراض قلب کو جو ہر سال پاکستان مفت علاج کرنے آیا کرتا تھا کو اسلئے بیوی بچوں کے سامنے گولی ماردی گئی کہ وہ احمدی تھا۔
یہ ساری صورتحات اسکے باوجود موجود ہے کے دستور پاکستان کے شق نمبر 20 میں ہر شہری کو عقیدہ یا مسلک رکھنے اور مذہبی اور مسلکی ادارے چلانے کا حق دیا گیا ہے۔
آئینِ پاکستان کی ایک دوسرے شق، شق نمبر 21 میں کسی بھی شہری کو عقیدہ رکھنے کی بنیاد پر ٹیکس لینے کی ممانعت کی گئی ہے۔ شق نمبر 22 میں کسی بھی عقیدے کی تعلیم کا حق مان لیا گیا ہے۔ شق نمبر 34 میں اقلیتوں کی سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی کو یقینی بنانے کا عزم کیا گیا ہے۔
اقلیتی بیانئے کے اثرات دیکھ کر کافی عرصے پہلے پڑھا مجید امجد کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا، شعر کے مصرعوں میں افراط و تفریط کیلئے معذرت خواہ ہوں۔
جب ہم ادھر سے گزرتے کون دیکھتا تھا
جب ہم ادھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا
Email: khadimhussain565@gmail.comTwitter: khadimhussain4