ریاست اور معاشرے کا کردار
کیا ایک معاشرے کے بارے میں اندازہ اس کے اپنے اعلیٰ اور ادنیٰ شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویئے کی بنا پر لگایا جاتا ہے؟ آپ ایک ایسی ریاست کو کیا نام دینگے جو اپنے مقتدر لوگوں کی تو ہر طرح سے خدمت کرتی ہے لیکن غریب عوام کی نہیں؟
ایک مہذب معاشرے اور جنگل میں کیا فرق رہ جائے گا اگر دونوں جگہوں پرایک ہی اصول کا اطلاق ہو، یعنی طاقتور کی بقاء کا اصول؟
اخلاقیات کے اصولوں، ضابطۂ قوانین کا کوئی مقصد ہے اگر یہ کسی کمزور کی حفاظت یا کسی جارح کو روکنے میں ناکام ہوں؟ اگر ہماری ریاست بکھرتی ہے تو اس کی وجہ ان ہی واضح سوالوں کے جواب ہونگے نہ کہ ہمارا سالانہ خسارہ-
کیا ہمارے نام نہاد ترقی پسند بس صرف اپنے کو کوستے ہی رہیں گے؟ کیا دوسرے بڑے ملکوں میں خرابیاں نہیں ہوتیں؟ کیا معاشرے کی ایک چھوٹی سی متعصب اورتشدد پسند اقلیت اورذی فہم اکثریت کو ایک ہی طرح سے جانچا جائیگا؟ جب غیرملکی ائیرپورٹ پر نہایت منظم مسافروں کا ایک گروہ جیسے ہی پاکستان میں داخل ہوتا ہے ایک بےحد غیر منظم مجمع میں تبدیل ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کسی فرد کی خرابی ہوئی یا اس کی ذمہ داری سسٹم پر ہے؟
اس بات پر کیا بحث کی جائے کہ ایک ریاست یا معاشرہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکا ہے؟ پاکستانی ترقی یافتہ ملکوں میں تارکین وطن کے طور پر ایک نہایت محنتی لوگ سمجھے جاتے ہیں- کیا پاکستان بھی ایک کارآمد 'نظام' کو اپنا کر بہتر نہیں ہوسکتا ؟ یقیناً ایسا ممکن ہے- لیکن ایسا 'نظام' کہاں سے آئیگا؟ کیا معاشرے یا ریاست کے اندر ہمارے تبدیلی کے نمائندے اس کے لئے تیار ہیں، کیا ماضی کی غلطیوں نے ہمیں دانا بنا کر ہماری توجہ اداروں کو بگاڑنے کے بجائے ان کی تعمیرکی جانب مبذول کرا دی ہے؟
پاکستان میں اس وقت ایک بےحد گھناؤنا عمل جاری ہے- ایک معاشرے کے طور پر ہم اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، ہماری صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت ختم چکی ہے (مذہبی نقطۂ نظر سے ہی نہیں)- اور اس منقسم ریاست میں، خودسری، منافقت اورمذہبی ٹھیکہ داری ایک معاشرتی ردعمل کے طور پر ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کا شیوہ بھی بن چکے ہیں اور نتیجتاً، ریاستی اداروں نے نہ صرف اپنی ساکھ کھوئی ہے بلکہ ریاست کے جائز ہونے کا جواز بھی داؤ پر لگا دیا ہے-
ڈاکٹر مہدی قمر، امریکہ میں مقیم ایک کارڈیولوجسٹ جوایک ہفتے کیلئے پاکستان آئے تھے، انہیں چند روز پہلے ربوہ میں دس گولیاں مار کرہلاک کر دیا گیا- ڈاکٹر قمر ایک احمدی تھے، پاکستان میں اگر آپ احمدی ہیں تو آپ ایک آسان شکار ہیں اور ہماری اکثریت کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے انتہا پسند آپ کے اعتقادات کی بنا پر آپ کی جان لے سکتے ہیں- اور اب جب کہ ہمارے پاس احمدی نہیں رہے ہیں، تو اب شیعوں کی باری آگئی ہے- ڈاکٹر فیصل منظور، ایک ابدالی، گذشتہ مہینے حسن ابدال میں اپنی کلینک کے باہر قتل کردیئے گئے، ہر شخص کا کہنا ہے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے- ان کی بدقسمتی کہ وہ شیعہ تھے-
گذشتہ ہفتے، ایک تعلیم یافتہ، جہاں دیدہ اور خوشحال رشتہ دار کے ساتھ بات چیت کے دوران گفتگو پاکستان کے حالات کے بارے میں ہونے لگی، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے- بڑھتی ہوئی تشدد پسندی کے بارے میں موصوف فرمانے لگے کہ شیعوں کو مارنا زیادتی کی بات ضرور ہے، لیکن وہ بھی شرارتی لوگ ہیں اور اسی لئے ان کے ساتھ یہی سب ہوتا ہے- یہ ستر سالہ بزرگ، بالکل تشدد پسند نہیں، اور عموماً ایک پسندیدہ شخصیت ہیں، ان کیلئے اگرچہ یہ بہت زیادہ مستحسن بات نہیں تھی تو بھی پاکستان میں شیعوں کے ساتھ ایسا رویہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں-
گذشتہ ہفتے، 25 سالہ فرزانہ پروین، تین مہینے کی حاملہ، جسے تمام لوگوں کے سامنے لاہور ہائی کورٹ کے باہراس کے باپ اور بھائیوں نے ملکر قتل کردیا- کیونکہ اس نے اپنی مرضی کی شادی کی تھی- اس کے شوہر (ادھیڑ عمر کا ایک شخص جس نے اپنی پہلی بیوی کو گلا گھونٹ کر مار دیا تھا اور ایک سال کی سزا کاٹ کر رہا ہوا تھا کیونکہ اس کے بیٹے نے اپنی ماں کے قانونی وارث کی حیثیت سے اس کو معاف کر دیا تھا) کا کہنا تھا کہ یہ 'عزت' کا مسئلہ بن گیا تھا کیونکہ فرزانہ کے خاندان نے پیسے کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں نہیں ملا-
کچھ لوگوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ پولیس نے وقت پر کارروائی نہیں کی- کیا ہماری پولیس عام لوگوں کیلئے ہے؟ 22 سالہ ثاقب جان، 9 مئی کو مار ڈالا گیا (اس کا گلا پڑوس کے ایک گھر میں کاٹا گیا) اور اس کی ایف آئی آر نمبر168 تھانہ واہ کینٹ میں درج کی گئی- اس کی دکھی ماں پولیس کے پاس بھاگ دوڑ کرتے ہوئے تھک گئی ہے کہ بیٹے کے قاتل کی گرفتاری کیلئے پولیس کچھ کرے لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے- اسے آپ کیسے بتائیں کہ ریاست اسے (یا ثاقب) کو تحفظ دینے کے لائق نہیں سمجھتی؟
ایوان عدل کے باہر فرزانہ کا بھیانک قتل، ہمارے تعزیری انصاف کے نظام کا مذاق اڑا رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف انصاف کے مقدس ایوان میں بیٹھنے والوں کو نظر نہیں آ رہا- لاہور ہائی کورٹ نے 90 کی دہائی ہی میں یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ جو عورتیں اپنی مرضی سے شادی کرتی ہیں وہ اپنے والدین کی بدنامی کا باعث ہوتی ہیں- اور عدالت کی ہمدردی کی مستحق نہیں- اسلامی نظریاتی کونسل (CII) کا فیصلہ ہے کہ والدین کو چھوٹی بچیوں کی شادی کرنے کا حق ہے اور جو قانون اس کی ممانعت کرتا ہے وہ غیراسلامی ہے-
لہٰذا یہ ریاست اور معاشرے کا مشترکہ نظریہ ہے کہ عورت کی حیثیت ایک موروثی جائداد کی طرح ہے- جب طالبان کی ویڈیو جس میں سوات میں عورت کو کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا سامنے آئی، تو ہمارے اخلاقی قدروں کے محافظوں کو اس میں سازش نظر آئی تھی- گذشتہ ہفتے، ایک 75 سالہ پاکستانی تارک وطن، نور حسین کو بروکلن میں، 25 سال کیلئے جیل بھیج دیاگیا- اس نے اپنی 66 سالہ بیوی کو اتنا مارا تھا کہ وہ مر گئی تھی- اس نے اس کیلئے دال پکائی تھی جب کہ اسے پورا کھانا چاہئے تھا- کیا یہ غلط ہے کہ ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بیویوں کی پٹائی کو جائز سمجھتے ہیں، اگرچہ کہ اتنا مارنا کہ وہ مر جائے یہ تھوڑی زیادتی ہے؟
فیصل منظور، مہدی قمر، فرزانہ پروین یا مظفرگڑھ کے اس 17 سالہ لڑکے کی موت کا، جس نے اس سال مارچ میں گینگ ریپ کا شکار ہوکر خودسوزی کر لی تھی، بدلہ کوئی نہیں لے گا- یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس کے خلاف کافی غصہ نہیں- کافی غصہ اس لئے نہیں ہے کہ اب یہ ہمارا معمول بن گیا ہے اور ہم نے کمزوروں اور اقلیتوں پر ہر طرح کے ظلم اور جبر( چاہے وہ ماربھی دئے جائیں) کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں-
آخر میں: عزت مآب سپریم کورٹ نے حکومت سے یقین دہانی مانگی ہے کہ ان کی نگہبانی میں کوئی شہری بھوکا نہیں ہوگا- اب سپریم کورٹ سے کون یقین دہانی مانگے گا کہ ان کی نگہبانی میں کسی شہری کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی؟
لکھاری ایک وکیل ہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری