پاکستان

'یہ سراسر غفلت تھی'

کراچی ایئرپورٹ پر کولڈ اسٹوریج میں جل کر ہلاک ہونے والے سات ورکروں میں سے ایک کی والدہ کی فریاد۔

کراچی: عنایت اللہ صفدر کی والدہ ارم نے اپنے کمرے میں میڈیا کے نمائندوں کو داخل ہوتے دیکھ کر جو پہلی بات کہی وہ یہ تھی کہ ’’اگر رات کو ہی کچھ کرلیتے تو آج میرا بیٹا زندہ ہوتا۔‘‘

منگل کی صبح سات کارگو ورکروں کی جلی ہوئی لاشیں کولڈاسٹوریج سے چھبیس گھنٹوں کے بعد برآمد کرلی گئیں۔ ان ورکروں نے ایئرپورٹ پر حملے کے وقت یہاں پناہ لے رکھی تھی۔

ان ورکروں کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اسٹارگیٹ کے قریب احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکام سے مسلسل درخواستیں کیں تو ان کو نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ رات گئے تک وہیں کھڑے رہے، اس دوران آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلوں نے ویئر ہاؤس کو نگل لیا تھا۔ اس ویئر ہاؤس کے ایک کونے میں کولڈ اسٹوریج کی سہولت تھی۔

ایک کونے میں اپنی والدہ کے ساتھ سمٹ کر بیٹھی ہوئی عنایت اللہ کی بہن نے پہلے تو بات کرنے سے انکار کردیا۔ ان کی والدہ مسلسل یہ دہرائے جارہی تھیں کہ ’’یہ سراسر غفلت تھی۔‘‘

کھوکھراپار، ملیر میں مقیم اس خاندان نے سہہ پہر تک تدفین نہیں کی تھی اور اپنے رشتے داروں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔

دو بچوں کے باپ عنایت اللہ کے پاس چھ سالوں سے کارگو ایریا کے انتظامی شعبے کی سربراہی کی ذمہ داریاں تھیں۔

اس خاندان کے لیے یہ پہلا سانحہ نہیں تھا، چند سال پہلے عنایت اللہ کے والد کی ایک سمندری جہاز میں اسی طرح کے حادثے میں موت ہوگئی تھی۔

عنایت اللہ کے گھر سے دو بلاک کے فاصلے پر چھبیس برس کے نبیل احمد کا خاندان سعودآباد میں اپنے دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہے۔ ان کے گھر پر رشتہ داروں، دوستوں اور نبیل کے ساتھیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔

نبیل ان لوگوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے سب سے پہلے ایئرپورٹ کے اندر حملے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو خبر دی تھی۔

اتوار کی رات گیارہ بجکر پانچ منٹ پر نبیل کی بہن ثناء کو اپنے بھائی کی جانب سے ایک ٹیکسٹ میسیج موصول ہوا، جس میں انہوں پوچھا تھا کہ کیا ٹی وی چینلز پر ایسی کوئی رپورٹ چل رہی ہے کہ ایئرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے۔

نبیل کی بہن نے بتایا ’’ہم پریشان ہوگئے تھے، اس لیے کہ اس وقت کسی ٹی وی چینل پر ایسی کوئی خبر نہیں آرہی تھی۔‘‘

پندرہ منٹ بعد یہ خبر واضح ہوگئی کہ درحقیقت ایئرپورٹ دہشت گردوں کے حملے کی زد میں ہے جو پارک کیے گئے ہوائی جہازوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔

نبیل کی بہن نے بتایا ’’ان کا آخری میسیج جو ہمیں موصول ہوا وہ یہ تھا کہ میں محفوظ مقام پر ہوں، میرے بارے میں فکرمند مت ہوں۔ ہمارا ان کے ساتھ سوا چار بجے تک رابطہ رہا، اس کے بعد اُن کا فون بند ہوگیا۔‘‘

کولڈاسٹوریج کے اندر سے فرید اللہ ہمایوں کا رابطہ مسلسل ورکرز یونین کے سربراہ یونس خان کے ساتھ تھا۔

یونس خان نے ڈان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھٹی پر تھے اور اندر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

انہوں نے کہا ’’فرید اللہ نے مجھے بتایا کہ امپورٹ آپریشن ویئر ہاؤس کے اندر تین دہشت گرد تھے، جس کے اندر کولڈ روم کی سہولت ہے۔ یہ ویئر ہاؤس اندازاً چار سو میٹر لمبا ہے، جو خام مال، کیمیکلز، مشینوں اور دواؤں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘

ورکرز یونین کے سربراہ نے بتایا ’’کارگو ڈیپارٹمنٹ کے بارہ افراد حملے کے وقت ویئر ہاؤس کے اندر تھے۔ ان میں سے چار وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، ایک اب تک لاپتہ ہے اور سات کولڈ اسٹوریج روم کی جانب بھاگ گئے۔‘‘

یونس خان فون کے ذریعے فرید اللہ کو مسلسل ہدایات دے رہے تھے، یہاں تک کہ ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد مستقل ہوا میں گولیاں چلا رہے تھے اور یہ ان کے لیے کسی بھی وقت خطرہ بن سکتے تھے۔

یونس خان نے کہا ’’فرید اللہ بھی زخمی ہوگئے تھے، اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ جب ان دہشت گردوں کی پہنچ سے دور بھاگ رہے تھے تو پھسل کر گر گئے تھے۔

ان تین دہشت گردوں میں سے ایک کو اے ایس ایف کے کمانڈو نے گولی ماردی تھی، دوسرا وہاں سے باہر بھاگ گیا، جبکہ تیسرے نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی، اور اس نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ اس وقت رات کا تین بجا تھا۔اس کی وجہ سے ویئر ہاؤس کے اندر رکھے کیمیکلز میں آگ بھڑک اُٹھی۔ اس کے فوراً بعد ہی میرا فرید اللہ کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔‘‘

جب صبح ساڑھے چار بجے فرید اللہ نے ان کی فون کال ریسیو نہیں کی تو یونس خان چند لوگوں کے ہمراہ ویئر ہاؤس پہنچ گئے تاکہ معلوم کرسکیں کہ وہاں کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا ’’وہاں ایک دوسرے کے ساتھ دو ویئر ہاؤس ہیں۔ایک کو درآمدی آپریشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور دوسرے کو ڈیلیوری کے لیے۔ درآمدی آپریشن کے ویئر ہاؤس نے آگ پکڑ لی۔ آگ کے شعلوں نے پورے کولڈ روم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہاں سے یہ آگ ڈیلیوری ویئر ہاؤس تک جاپہنچی۔‘‘

تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ ایئر مارشل محمد یوسف نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ ’’یہ لاشیں ویئر ہاؤس سے برآمد ہوئی تھیں، کولڈ اسٹوریج سے نہیں۔‘‘

لیکن متاثرین کے خاندان کے افراد نے ان کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے خود کو بچانے کی ایک کوشش قرار دیا۔

ان ورکروں کے گھروالوں کو جب علم ہوا کہ کولڈ اسٹوریج میں آگ لگ گئی ہے تو انہوں نے اندر جانے کی کوشش کی، لیکن سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے انہیں روک دیا گیا تھا۔

ثناء نے کہا ’’ہم سمجھتے تھے کہ وہ اس وقت ایک بڑے خطرے سے نمٹ رہے ہیں، لیکن ہم نے حکام سے درخواست کی کہ کم از کم سول ایوی ایشن اتھارٹی کو کچھ کرنا چاہیٔے۔‘‘

یونس نے مزید بتایا کہ ایک گھنٹہ طویل انتظار کرنے کے بعد انہوں نے اندر جانے کا بندوبست کیا۔ ’’وہاں پر دس فائر ٹینڈرز کھڑے تھے، لیکن ان کی آگ بجھانے کی کوشش نے آگ کو مزید بھڑکا دیا تھا۔‘‘

منگل کی صبح جب ان ساتوں ورکروں کی لاشیں وہاں سے نکالی گئیں تو اس قدر جل چکی تھیں کہ پہچانے جانے کے قابل نہیں تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’’ہم ان میں سے صرف تین کی شناخت کرسکے، سیف الرحمان کو ان کے قد کی وجہ سے، نبیل احمد کو گلے میں پہنی ہوئی چین کی وجہ سے اور عنایت اللہ کو ان کی جیب میں رکھی ہوئی ادھ جلی تصویر کی وجہ سے پہچانا گیا۔‘‘

اس کے بعد جب ان لاشوں کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے مردہ گھر میں لے جایا گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے تین راستوں کا انتخاب کرنے کے لیے کہا۔

یونس خان نے کہا ’’ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ڈی این کے نمونوں کی رپورٹ کا انتظار کریں، جس میں اکیس دن کا وقت لگ جائے گا۔ دوسرے یہ کہ لاشوں کو ایک دوسرے کے قریب تدفین کردی جائے اور ڈی این اے رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔ جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ سب مسلمان تھے، لہٰذا یہ مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیٔے کہ کون کہاں دفن ہے۔ تیسرے ان لاشوں کی شناخت کی کوشش کی جائے، جو اس صورتحال میں نہایت مشکل کام ہے۔‘‘

ان تمام کے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ سب کی تدفین کردی جائے اور اب وہ ڈی این اے رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں۔

نبیل کی بہن نے کہا کہ ’’میں یہ کہتے ہوئے مجھے خود سے نفرت ہورہی ہے، لیکن کون ہے جو نبیل کے بعد میرا گھر چلانے میں میری مدد کرے گا؟ میں ڈی این اے کی رپورٹ کا انتظار کروں گی۔ میرے پاس یہ واحد ثبوت ہوگا کہ میرا بھائی مرچکا ہے۔‘‘