دنیا

فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کے حق کی خریداری

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کہ قطر نے 2022ء میں فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق حاصل کرنے کے لیے رشوت دی تھی۔

قطر کا حکمران خاندان یقیناً اپنی خوش قسمی کو محفوظ بنانے کے لیے اخراجات کےحوالے سے دشواری محسوس کررہا ہوگا، اور اس وقت ورلڈ کپ 2022 کے پروگرام کے انعقاد کی تیاری میں مصروف اس چھوٹی سی ریاست پر اس لیے تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کا حق خریدا تھا۔

فیفا نے 2010ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ قطر نے 2022ء میں فٹبال کے ورلڈکپ کی میزبانی کا حق ووٹوں کی اکثریت کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔ تاہم میڈیا میں اور نجی طور پر رشوت ستانی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔

لیکن پچھلے ہفتے سنڈے ٹائمز میں شایع ہونے والی ایک سنسنی خیز اسٹوری میں مختصر سے ثبوت بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ اسٹوری لاکھوں ای میلز کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے، جو کئی نمائندوں کو ادائیگی کی گھناؤنی کہانیاں سناتی ہیں۔

اس اسکینڈل کا مرکزی کردار ایک قطری محمد بن حمام ہے، جس نے مبینہ طور پر ووٹوں کی خریداری کے لیے پچاس لاکھ ڈالرز کی رشوت کا ایک فنڈ کا استعمال کیا۔

اس کے علاوہ قطر کے شاہی بیڑے کے ایک جیٹ طیارے میں اس نے دنیا بھر میں پرواز کی۔

ایک جانب میزبانی کے لیے انتخاب کے عمل کے دوبارہ انعقاد کے مطالبات کا ایک ڈھیر لگ گیا ہے۔

تو دوسری طرف فٹبال کی اس رسوا کن اور غیر شفاف ادارہ فیفا، اس عوامی دباؤ کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔

اب تک فیفا کے صدر نے چالاکی کے ساتھ اس فیصلے کو روک رکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فیفا ایک سال سے جاری انکوائری کی رپورٹ جمع کرائے جانے کا انتظار کرے گا۔ یہ انکوائری ایک امریکی وکیل مائیکل گارشیا کر رہے ہیں۔

اگرچہ مائیکل گارشیا اس مہینے کے بعد اپنی رپورٹ جمع کرادیں گے، تاہم انہوں نے سنڈے ٹائمز کے انکشافات میں سے کچھ بھی اپنی رپورٹ میں شامل نہیں کیا ہے۔

بالفرض ان کی رپورٹ سے یہ نتیجہ نکلا کہ کوئی جرم نہیں ہوا تھا، تو نئے دستیاب مواد کی عدم موجود گی کی وجہ سے ان کی رپورٹ کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔

بہرحال قطر کو فٹبال کا پاور ہاؤس کہنا مشکل ہے اور اس کا شدید موسمِ گرما دنیا کے سب سے زیادہ مقبول کھیل کی تقریب کے انعقاد کے لیے فطری طور پر مناسب نہیں ہے۔

لہٰذا اس ٹورنامنٹ میزبانی کا حق حاصل کرنے کے لیے ضروری ووٹوں کی خاطر خاصی کوششیں کی گئی ہوں گی۔

اور جیسا کہ سنڈے ٹائمز کے انکشافات یہ اشارہ کرتے ہیں کہ خصوصاً افریقہ سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو بھاری نقد ادائیگی، شاہانہ تفریح، ہوائی جہاز کے ٹکٹس اور ہوٹل میں قیام و طعام کے اخراجات کے ذریعے قائل کیا گیا ہوگا۔

حمام کو اپنی مہم کا خیال کس طرح پیدا ہوا، دی اسپیکٹیٹر میں روڈ لڈل نے اپنے کالم میں سوازی لینڈ کے نمائندے کی ایک ای میل کا حوالہ دیا ہے۔

اس معاملے میں ایک اہم شخصیت مشل پلاٹینی کا نامناسب کردار ہے، جو فیفا کی یورپیئن شاخ کے فرانسسی صدر ہیں۔

انہوں نے ناصرف قطر کے لیے ووٹ دیا، بلکہ 2010ء کی ووٹنگ سے پہلے قطر کے وزیراعظم اور شہزادے (اب قطر کے حکمران امیر) کے ساتھ اس محل میں کھانا کھایا، جہاں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی میزبان تھے۔

اگرچہ اس ملاقات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوسکتا، اور فرانس اور قطر کے درمیان بہت سے تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔ تاہم تنقید کرنے والے دوسری جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد قطر کی کھیلوں میں سرمایہ کاری کے تحت ایک سرکاری کمپنی نے سرکوزی کی پسندیدہ فٹبال ٹیم پیرس سینٹ جرمین کو خریدا تھا۔

بالآخر ممکنہ نتیجے کے تحت پلاٹینی کا بیٹاقطر کی ایک اسپورٹس کے سامان کی کمپنی بُردا کا چیف ایگزیکٹیو بن گیا تھا۔

یہ الزامات قطر کی کوششوں کے لیے بُری خبریں ہیں۔ تین لاکھ کی مقامی آبادی کے ساتھ یہ مختصر سی ریاست خطے میں اور اس سے باہر نہایت اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ایک مقبول ٹی وی چینل الجزیرہ کے قیام سے خلیج میں اور اس کے اردگرد کی کہیں زیادہ طاقتور عرب پڑوسی ناراض ہوئے ہیں۔

قطر کی تنہائی میں ایک اہم عنصر ہزاروں غیرملکی تعمیراتی کارکنوں کے ساتھ بُرا سلوک ہے، جن کی خدمات نئے فٹبال اسٹیڈیمز کی تعمیر کے لیے حاصل کی گئی تھی۔

مغربی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر رپورٹیں شایع کی گئی تھیں کہ بہت سے ورکرز جن کا تعلق برصغیر سے تھا، کام کی انتہائی خراب صورتحال کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔

اور مقامی کفالہ سسٹم عملی طور پر انہیں غلام بنالیتا ہے، جس کے تحت آجر ورکروں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور ان کے لیے کام چھوڑ کر جانا ممکن نہیں ہوتا۔

جب دنیا بھر سے دباؤ بڑھا تو فیفا نے اس معاملے کو قطری حکام کے سامنے اُٹھایا تھا، لیکن ان کی جانب سے اصلاحات کے مبہم وعدے ہی کیے گئے تھے۔

لیکن اس کے باوجود ورکرز ان تعمیراتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے پچاس ڈگری میں اپنا پسینہ بہا رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

اب تک قطر پچاس کروڑ ڈالرز خرچ کرچکا ہے، پچیس ارب ڈالرز کی ایک اور رقم شاہراہوں کی تعمیر کے لیے مختص کی گئی ہے، اور چھتیس ارب ڈالرز زیرِ زمین ٹرین سسٹم کے لیے رکھے گئے ہیں۔

لیکن اگر فیفا 2022ء کے ورلڈکپ کے لیے دوبارہ ووٹنگ کا انعقاد کا فیصلہ کرلیتا ہے، تو قطری حکام کو اس بھاری رقم سے کہیں زیادہ نقصان کے خطرہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس سے پہلے ہی اس ملک نے میڈیا پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہ یہ سوال اُٹھانا شروع کردیا ہے کہ ایک عرب ملک میں ورلڈ کپ کیوں نہیں منعقد ہونا چاہیٔے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سخت دباؤ میں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی سازش باہر نہیں آئی ہے، صرف لالچ اور ہوس ہے۔ ورلڈکپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے قطر کی بولی کو سنجیدگی سے کیوں لیا گیا، یہ بات اب زیادہ عرصے تک راز نہیں رہے گی۔