نقطہ نظر

بڑا کام کریں -- تعلیم کو جی ڈی پی کا چار فیصد دیں

آئیے اس بجٹ کو ایک ایسا بجٹ بنائیں جس میں تعلیمی اخراجات، فوج پر ہونے والے اخراجات سے زیادہ ہوں-

تعلیم پر ناکافی اخراجات نے پاکستان کو دوسروں سے پیچھے کر دیا ہے- تعلیم کو ایک قومی ترجیح میں تبدیل کرنے کیلئے جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کے سوا کیا کوئی بہتر طریقہ ہو سکتا ہے-

اب جب کہ بجٹ ترجیحات کا حتمی تعین کیا جا رہا ہے، مخصوص انٹرسٹ گروپس بھی ریلیف اور اسپیشل ٹریٹمنٹ حاصل کرنے کے چکروں میں مصروف ہو گئے ہیں- پرائمری اور سیکنڈری تعلیم اب بھی ایسے شعبے ہیں جنھیں ایک چیمپئن کی ضرورت ہے- اس کی وجہ سے قوم کے طویل مدتی امکانات کو نقصان پہنچا ہے- دیگر تقابلی ملکوں کی نسبت تعلیم پر ناکافی اخراجات کی وجہ سے پاکستان میں کچھ اس قسم کی عدم مساوات کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ جہاں سرکاری اسکولز افورڈیبل ہونے کے باوجود اس معیار سے کہیں پیچھے ہیں جو وہ نجی اسکولز فراہم کر رہے ہیں جو کہ صرف امیر ہی افورڈ کر سکتے ہیں-

آئیے اس بجٹ کی وہ بنا دیں جو کہ تعلیم کے حوالے سے اس قوم کی حالیہ تاریخ کا سب سے بولڈ اسٹیٹمنٹ کہلائے- پاکستان میں تعلیم پر ہونے والے اخراجات اوسطاً جی ڈی پی کا دو فیصد رہے ہیں- جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان نے فوج پر تقریباً 47 فیصد زیادہ اخراجات کئے ہیں- اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کر لیں- آئیے اس بجٹ کو ایک ایسا بجٹ بنائیں جس میں تعلیمی اخراجات، فوج پر ہونے والے اخراجات سے زیادہ ہوں- یہ قرض ہم پر ان 5.5 ملین بچوں کی طرف سے ہے جو اسکولوں سے باہر ہیں اور بہت سے دیگر لاکھوں بھی جن کی اسکولنگ پر اتنا خرچ بھی نہیں آنا-

یونیسکو کی ایک رپورٹ سے 2013 میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے- صرف نائجیریا ہی ایسا ملک ہے جہاں یہ تعداد پاکستان سے زیادہ ہے- جب ملک کے پچپن لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہوں تو پاکستان پر حکومت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ کیوں پاکستان میں ہندوستان کے مقابلے میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے جبکہ یہاں کی آبادی وہاں کی آبادی کے مقابلے میں پانچویں حصے سے بھی کم ہے-

یہ مناسب نہیں کہ پاکستان میں تعلیم پر اخراجات کا مقابلہ، جو کہ اوسطاً جی ڈی پی کا دو فیصد ہوتے ہیں، ان ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ کیا جائے جو کہ تقریباً پانچ فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں- زیادہ مناسب تو یہ ہے کہ یہ تقابل ان ملکوں کے ساتھ کیا جائے جن کی سماجی اور معاشی پروفائل یکساں ہو- لیکن تب بھی پاکستان میں اس تقابل کے حساب سے تعلیم پر کہیں کم اخراجات کئے جاتے ہیں-

جہاں دیگر ملک تعلیم پر بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں لگتا ہے پاکستان اپنے اخراجات کی ترجیحات متعین نہیں کر پا رہا- نیپال کی مثال لے لیں جو کہ اوسطاً اپنے جی ڈی پی کا 4.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور جو پاکستان کے مقابلے میں 235 فیصد زیادہ ہے- اسی طرح مالدیپ اپنے جی ڈی پی کا سات فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے- اور پھر افریقہ کے سوازی لینڈ اور کینیا جسے بھی ملک ہیں اور وہ بھی اپنے جی ڈی پی کا تقریباً سات فیصد تعلیم پر لگاتے ہیں- اس لحاظ سے پاکستان کے پڑوسی بھی پاکستان کے مقابلے میں تعلیم پر زیادہ اخراجات کرتے ہیں- ایران اپنے جی ڈی پی کا تقریباً 3.7 فیصد اور ہندوستان اپنے جی ڈی پی کا 3.2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں-

دوسری جانب فوج پر ہونے والے اخراجات ایک دوسری تصویر پیش کرتے ہیں جہاں پاکستان دوسرے تقابلی ملکوں کی نسبت اپنی جی ڈی پی کا 3.13 فیصد کرتے ہوئے نمایاں ہوتا ہے- نیپال میں فوج پر ہونے والے اخراجات جی ڈی پی کا محض 1.4 فیصد ہیں جبکہ کینیا میں 1.96 فیصد- پاکستان کے پڑوسی بھی پاکستان کے مقابلے میں فوج پر کہیں کم خرچ کرتے ہیں- ایران میں فوجی اخراجات جی ڈی پی کا 2.19 فیصد ہیں جبکہ ہندوستان اپنے جی ڈی پی کا 2.4 فیصد فوج پر خرچ کرتا ہے- اور حالانکہ افغانستان کے تعلیم پر ہونے والے اخراجات کے اعدادوشمار دستیاب نہیں تاہم افغانستان اپنی فوج پر جی ڈی پی کا 3.6 فیصد خرچ کرتا ہے-

اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان میں تعلیم پر ہونے والے ناکافی اخراجات بھی ایک ایسے جاہل اور رودادی سے عاری معاشرہ تشکیل دینے کا سبب بنے ہیں جس نے کئی دہائیوں تک نظرانداز کئے جانے کے بعد، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے نظریات قبول کر لئے ہیں- جہاں حکومت تعلیم پر مناسب اخراجات کرنے میں ناکام رہی تا کہ اس ڈیمانڈ کو پورا کیا جا سکے جو کہ ملک کی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کی ضروریات کو پورا کر سکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں بچے یا تو اسکول جا ہی نہیں سکے یا پھر غربت کی وجہ سے انہیں اسکول چھوڑنا پڑا- نوجوان لڑکیوں کو تو مزید مشکلات درپیش ہیں کہ انہیں تعلیم نہ دلانے کے حوالے سے فرسودہ روایات اور خیالات موجود ہیں-

اور جب حکومت اسکولوں کے ذریعے 'سیکولر تعلیم' کی فراہمی میں ناکام رہی تو اس خلاء کو پر کیا عسکریت پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں نے جنہوں نے ایسے مدرسے بنائے جہاں نہ صرف مفت مذہبی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ غریب کے بچوں کے لئے رہنے اور کھانے پینے کا بھی انتظام ہوتا ہے جو کہ ایک طرح سے ان بچوں کے لئے ان فوسٹر ہومز کا کام کرتے ہیں جن کے والدین انہیں کهلانے یا تعلیم فراہم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے- اور پھر ہوا یہ ہے کہ پاکستان میں ان میں سے بہت سے مدرسوں (تمام نہیں) نے پاکستانی نوجوان کو انتہا پسند بنا دیا اور انہیں عسکریت پسندی کے لئے تیار کردیا جو کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف تنازعات میں مصروف ہیں-

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے متعلق پچاس ہزار سے زیادہ اموات کے مدنظر جو کہ تقریباً سب ہی ایسے انتہا پسند نوجوانوں سے تعلق رکھتی ہیں، اس بات کی اشد اور فوری ضرورت ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل پر سرمایہ کاری کی جائے-

پاکستان کے حالیہ ماضی سے انکشاف ہوتا ہے کہ فوج پر خرچ کرنے سے پاکستان کو درپیش اندرونی خطرات سے نبٹنے میں کوئی مدد نہیں ملی- دیگر قومیں جنہوں نے پاکستان جیسے مسائل سے چھٹکارا پایا، ان سے یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستان کو تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے- یہ بجٹ نواز شریف حکومت کو یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھا دیں-

آئیے اسے ایک ایسی دہائی بنا دیں جس میں پاکستان اپنے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے اور اپنا مستقبل محفوظ بنائے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔