پاکستان

الطاف حسین کا پاکستان سے لندن تک کا سفر

الطاف حسین کی سیاسی زندگی کاآغاز جامعہ کراچی سے ہوا جہاں انہوں نے عظیم طارق کے ساتھ ملکر اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی۔

الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی اور قائد ہیں۔ اس سے پہلے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے شناخت ہونے والی اس جماعت نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان ہجرت کرنے والے اردو اسسپیکنگ کمیونٹی کی نمائندہ کے طور پر اپنی ابتدا کی تھی۔

الطاف حسین فی الوقت لندن میں مقیم ہیں جہاں وہ گذشتہ بیس سال سے خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔

مختصر سوانح

الطاف حسین سترہ ستمبر، سن اُنیّسو تریپن کو کراچی میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد کا نام نذیر حسین تھا جو انڈین ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے۔

ان کے والدین کا تعلق آگرہ سے تھا اور وہ تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوئے۔ الطاف حسین نے اپنی ابتدائی تعلیم عزیز آباد کے نواحی علاقے میں سرکاری اسکول سے حاصل کی۔

عزیز آباد کراچی کے متوسط طبقے پر مشتمل آبادی ہے، جہاں ایم کیو ایم کے بانی نے اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کا بیشتر حصہ گذارا۔

بعد میں انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ فارمیسی میں داخلہ لیا اور سن اُنیسو اُناسی میں یہیں سے گریجویشن کی ڈگری لی۔

ابتدائی سیاسی زمانہ اور ایم کیو ایم کی تشکیل

الطاف حسین کی سیاسی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی سے ہوتا ہے، جہاں وہ اور اُن کے ساتھی طالب علم عظیم طارق نے مل کر آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی بنیاد رکھی۔

سن اُنیّسو اٹھہتّر میں تشکیل دی جانے والی اس تنظیم نے مختصرعرصے میں نہایت مقبولیت حاصل کرلی۔

اگرچہ سن اُنیّسو اسّی تک یہ جامعہ کراچی میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی تاہم سن اُنیّسو اکیاسی میں منعقدہ طلبا تنطیموں کے انتخابات میں اے پی ایم ایس او نے دُگنے ووٹ حاصل کیے، جس کا سبب ضیا مخالف یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کا ان کے ساتھ اشتراکِ عمل تھا۔

اس دوران، اے پی ایم ایس او کو جماعتِ اسلامی کے طلبا ونگ اسلامی جمیعتِ طلبہ کی شدید مزاحمت و مخالفت کا بھی سامنا رہا۔

سن اُنیّسو چوراسی میں اے پی ایم ایس او کے قائدین نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) قائم کی۔ یہ وہ سیاسی جماعت تھی، جس میں اے پی ایم ایس او بطور سینئرپارٹنر شامل تھی۔

مہاجر قومی موومنٹ کو بطور سیاسی جماعت اس کے قائد الطاف حسین نے سن اُنیّسو چھیاسی میں، کراچی کے نشتر پارک میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں لانچ کیا۔

ایم کیو ایم نہایت تیزی سے کراچی اور اندرونِ سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول ہوئی، تاہم اس کے ساتھ ہی، اس سے منسلک نسلی اور لسّانی تنازعات بھی اپنے عروج کو پہنچنے لگے۔

سن اُنیسو اٹھاسی کے انتخابات میں الطاف حسین کی زیرِ قیادت، ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں میں مکمل کامیابی حاصل کی اور صوبے کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔

اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا اور نتیجے میں حکومت میں شامل ہوگئی، تاہم کچھ عرصے کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے اور سن اُنیّسو نواسی میں ایم کیو ایم نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔

سن اُنیّسو نوے کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم ایک بار پھر صوبے کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اس مرتبہ، اس نے اُس وقت کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کیا۔ مخلوط حکومت کی یہ شراکت داری سن اُنیّسو بانوے میں ٹوٹ گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ نون، الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی حمایت ختم ہونے کے بعد، دونوں کی حکومتیں ختم ہونے کے دہانے تک پہنچ چکی تھیں۔

الطاف حسین اور ان کی جماعت نے سن اُنیّسو ترانوے میں بطور احتجاج قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تاہم صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے پر رضامند ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ کراچی کی طاقت ور جماعت بن کر سامنے آئی۔

مہاجر کمیونٹی کی شناخت سے باہر نکل کر، ملکی سطح پر سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے سن اُنیّسو ستانوے میں جماعت کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔

جماعت نے اپنے اندر دھڑا (ایم کیو ایم حقیقی) بنتے بھی دیکھا۔ یہ دھڑا الطاف حسین کی جماعت کا اصل نام استعمال کررہا تھا 'مہاجر قومی موومنٹ ۔ حقیقی'۔

اگرچہ یہ دھڑا الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کی تقسیم پر تو کوئی خاص اثر مرتب نہیں کرسکا تاہم کراچی میں اس کے سبب بے چینی میں بہت اضافہ ہوا اور یہی سن اُنیّسو بانوے کے معروف آپریشن کی بنیاد بھی بنا۔

قیادت اور جلاوطنی

الطاف حسین نہایت کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں، جنہیں اپنی جماعت کے کارکنوں کی انتہائی جذباتی حمایت حاصل ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے جماعت کو ایک قیادت تلے مضبوطی سے باندھے رکھا۔

سن اُنیّسو نوّے میں جب حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا تو الطاف حسین ملک سے باہر چلے گئے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔

کہا یہ گیا کہ کراچی آپریشن 'دہشت گردوں' اور جرائم پیشہ افراد' کے خلاف ہے تاہم ایم کیو ایم کے خلاف نہایت سخت کارروائیاں کی گئیں جس کے باعث کراچی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایم کیو ایم کے درمیان محاذِ جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔

اس پُرتششد دور میں خود الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین بھی قتل ہوئے۔

ایم کیو ایم پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ خود کو اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے تشدد کا حربہ استعمال کررہی ہے۔

الطاف حسین نے اس الزام کے جواب پر کہا کہ جب سے ایم کیو ایم قائم ہوئی، تب سے ریاست اور دیگر سیاسی جماعتیں اسے اپنا ہدف بنا کر کچلنے کی کوششیں کررہی ہیں۔

لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے قائد نے گزشتہ انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اگر انہیں انتخابات میں موقع ملا تو وہ پاکستان کو مساوات پر مبنی نظام دیں گے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملکی خواتین کی تقدیر بدل دیں گے اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کی حالات بہتر بنانے کے اقدامات کریں گے۔

ایم کیو ایم کے قائد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں حکومتی ناکامی، سندھ کی تقسیم کا ردِ عمل ظاہر کرنے پر بھی خبروں میں چھائے رہے۔

ان کے بیان کو بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

دسمبر، دو ہزار بارہ میں عدلیہ کے خلاف بعض کلمات ادا کرنے پر الطاف حسین کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہینِ عدالت کا نوٹس بھی جاری ہوا۔

بعد ازاں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ سے اپنے کلمات پر غیر مشروط معافی مانگی جو قبول کرلی گئی۔