پاکستان

'فرزانہ کو اس کے شوہر نے قتل کیا'

اینٹیں مار کر ہلاک کی گئی خاتون فرزانہ پروین کی بہن نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتولہ کو اس کے شوہر اقبال نے قتل کیا۔
|

لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی اعلیٰ عدلیہ کے باہر اینٹیں مار کر قتل کی گئی حاملہ خاتون فرزانہ پروین کے مقدمے میں نت نئے انکشافات کا سلسلہ جارہ ہے اور تازہ ترین پیشرفت میں فرزانہ بہن نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتولہ کو ان کے شوہر نے قتل کیا۔

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق 25 سالہ فرزانہ کو محمد عظیم نامی شخص سے پسند کی شادی کرنے پر منگل کو لاہور ہائی کارٹ کے باہر ان کے والد اور بھائی نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔

اس موقع پر پولیس بھی موجود تھی لیکن اس نے بھی ملزمان کو تین ماہ کی حاملہ عورت پر اینٹیں برسانے سے نہ روکا۔

دن دہاڑے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت میں سرعام اس وحشیانہ قتل کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی تھی۔اس سے قبل فرزانہ نے اپنے ایک کزن سے شادی سے انکار کردیا تھا۔

تاہ بدھ کو مقدمے میں ایک نیا انکشاف اس وقت ہوا جب فرزانہ کی بہن خالدہ بی بی نے دعویٰ کیا کہ فرزانہ کو اس کے شوہر اقبال نے قتل کیا۔

خالدہ بی بی نے لاہور میں صحافیوں کو بتایا کہ محمد اقبال اور اس کے ساتھیوں نے فرزانہ کو قتل کیا اور ان کے دیگر اہلخانہ پر غلط الزام عائد کیا گیا ہے۔

'میں موقع پر موجود تھی اور جب وہ وکیل کے چیمبر سے باہر آئیں تو فوراً ہماری جانب لپکیں لیکن اقبال اور اس کے ساتھیوں نے فرزانہ کا پیچھا کیا اور اسے اینٹوں سے مارا'۔

یاد رہے کہ اقبال نے کہا تھا کہ اس نے جنوری میں فرزانہ سے محبت کی شادی کی جبکہ جمعہ کو انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ان پر اور ان کی بیوی پر فرزانہ کے اہلخانہ نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر حملہ کیا۔

اسی دوران اقبال نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے 2009 میں فرزانہ کی محبت کے چکر میں اپنی پہلی بیوی کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تھا۔

خالدہ نے مزید بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ فرزانہ کے ہمراہ دارالامان میں 13 دن گزارے اور اس دوران مقتولہ کا کہنا تھا کہ وہ اقبال سے چھپ رہی ہیں۔

'اس نے مجھے بتایا تھا کہ اقبال نے اسے اغوا کر کے شادی کے لیے مجبور کیا اور اسے خطرہ تھا کہ اقبال اسے بھی سابقہ بیوی عائشہ کی طرح مار ڈالے گا'۔

دوسری جانب پولیس نے اس عمل کو قتل کی عام سی واردات قرار دیا ہے۔

سینئر پولیس افسر ذوالفقار حمید نے اپنے اہلکاروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایک اہلکار نے حملہ آوروں سے گن چھین لی تھی اور دعویٰ کیا کہ موقع پر بھیڑ ہونے کے باعث پولیس قتل کی واردات روکنے میں ناکام رہی۔

اس موقع پر انہوں نے غیر ملکی خبر رساں اداروں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اس واقعے کو غلط انداز میں پیش کیا۔

حمید نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ دیگر قتل کے مقدموں کی طرح ایک عام سا مقدمہ تھا اور اسے پاکستانی معاشرے کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی میڈیا نے دونوں خاندانوں کا پس منظر جانے بغیر اسے سنگساری کا واقعہ بیان کیا جو انتہائی غلط ہے۔

متعدد قدامت پسند پاکستانی گھرانوں میں آض بھی عورتوں کی جانب سے پسند کی شادی اور اپے شہر کے چناؤ کے فیصلے کو شرمناک عمل تصور کیا جاتا ہے اور پھر ماں باپ یا بڑے بوڑھوں کی جانب ست طے شادی سے انکار کا نتیجہ غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔

پاکستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گزشتہ سال غیرت کے نام ملک بھر میں 869 خواتین کو قتل کیا گیا لیکن مقتولین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس حوالے سے بہت سے کیسز سامنے ہی نہیں آتے۔