اردو میڈیم، انگلش میڈیم
اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، تعلیم ہی کی بدولت کوئی بھی فرد معاشرے کا مفید شہری اور کامیاب انسان بن سکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں دوہرا معیارِ تعلیم چلایا جارہا ہے۔
پاکستان میں تین طبقوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، اِن میں سب سے بڑی تعداد غریب و درمیانہ طبقہ کے بچوں کی ہے۔ جو ملک کے مختلف سرکاری سکولوں میں زیرِتعلیم ہیں۔ اِن سرکاری سکولوں میں اردو نصابِ تعلیم رائج ہے۔
اس کے بعد آتے ہیں درمیانے و نارمل امیر طبقے کے بچے ان کی بھی کافی بڑی تعداد ملک کے مختلف درمیانے و اچھے پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اِن پرائیوٹ اسکولوں میں انگلش پر بڑی خاص توجہ دی جاتی ہے اور اِن کا معیار تعلیم سرکاری سکولوں سے بہت بہتر ہے.
آخر میں باری آتی ہے امیر ترین طبقے کے بچوں کی۔ ان کا نصابِ تعلیم مکمل طور پر انگلش میڈیم ہے، اس طبقے کے سکول، اساتذہ، تعلیمی معیار سب کچھ مکمل اور بہترین ہے۔ اِن سکولوں میں طالب علموں کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے لائبری، کھیلنے کے لئے گراونڈ اور کھانے پینے کی چیزوں کے لئے کینٹین کی سہولت بھی میسر ہے۔
وزراتِ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود تمام سرکاری سکولوں میں تقریباََ 3 کروڑ 74 لاکھ 42 ہزار 9 سو طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اَن ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے. اس کی بنیادی وجہ غربت و جہالت ہے۔ ہمارے سرکاری سکولوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر سال تمام صوبوں کے سرکاری سکولوں کا میٹرک کا رزلٹ انتہائی خراب آتا ہے۔
طالب علموں کی اکثریت ناکام ہوجاتی ہے، کوئی بھی صوبائی حکومت اس صورتِ حال کو درست کرنے کی مخلص کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ سرکاری سکولوں کی حالت زار یہ ہے کہ طلباء زیادہ اور کمرے کم ہیں، بعض ایسے سکول بھی ہیں جہاں پر بنچوں کی شدید قلت ہے، طلباء زمینوں پربٹھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گرمیوں کا موسم بھی زیادہ عرصہ رہتا ہے اور بجلی بحران بھی جاری ہے۔ ایسے سخت حالات میں جو سبق یاد بھی کیا ہوگا وہ بھی انسان بھول ہی جائے گا۔
جب طلباء میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ و گریجویٹ لیول پر پہنچتے ہیں تو درمیانے و غریب طبقے کے بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میٹرک کے بعد کی کلاسوں میں کورس انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔ سرکاری سکولوں کے طالب علموں نے میٹرک تک اردومیڈیم میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہے، ذہین و قابل طلباء بھی اس مشکل سے بچ نہیں پاتے۔
جن ذہین قابل طلباء کا ارادہ ڈاکٹر انجنیئر بننے کا ہوتا ہے، بیشک اَن کے نمبر بھی کالج کے میرٹ پر آجائے اور اَن کو داخلہ بھی مل جائے۔ اَن کی مشکلات تب شروع ہوتی ہیں جب وہ کورس مکمل کررہے ہوتے ہیں، کیونکہ زندگی کے بارہ سال انہوں نے اردو میں پڑھا ہے۔ گریجویشن میں تمام نصاب اچانک انگریزی میں ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سرکاری سکولوں کے طلباء پر بڑا سخت دباؤ آتا ہے اور اَن کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ کتنے بے چارے محنت کرنے کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپاتے، یعنی محنت کرنے کے باوجود کم نمبروں کے ساتھ پاس ہوکر بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہر سال گریجویٹ لیول کے امتحانات میں بہت بڑی تعداد طلباء کی ناکام ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس امیر طبقے کے طلباء کو گریجویٹ و ماسٹر لیول پر ذرا بھی مشکل پیش نہیں آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ بچپن سے ہی انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ درمیانہ و غریب طبقے کے عوام کی بھی دلی آرزو یہ ہی ہوتی ہے کہ اَن کے بچے بھی بہترینتعلیم حاصل کریں۔ خراب مالی حالات کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں تعلیم دلوانے کی استعاد نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی اکثریتی طبقے کی عوام بہترین تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔ امریکہ و دیگر مغربی ممالک اس لئے آج اتنے ترقی یافتہ ہیں کیونکہ وہاں پر امیر غریب درمیانہ سب طبقوں کے عوام ایک نصاب تعلیم پڑھتے ہیں۔ اِن قوموں کی کامیابی کا راز ہے معیاری تعلیم سب کے لئے۔
پاکستان کو بنے 67 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، کتنی حکومتیں آئی اور کتنی گئیں لیکن کسی نے بھی ایک نصابِ تعلیم پالیسی پر کبھی توجہ نہیں دی۔ نجانے تعلیمی نصاب کے مسئلے کا خمیازہ ہماری قوم کب تک بھگتے گی۔
آخر غریبوں کے بچے کب تک فرسودہ اور پسماندہ طرز تعلیم سے بہلائے جائیں گے؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک میں ایسا نصاب تعلیم رائج کیا جائے جو ملک کے تمام سرکاری و پرائیوٹ سکولوں میں یکساں پڑھایا جائے۔ تمام طبقے کے بچے ایک نصاب تعلیم میں علم حاصل کرے، سرکاری سکولوں میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے، طلباء کو بہترین تعلیمی ماحول وسہولیات فراہم کی جائیں۔
سرکاری سکولوں میں غیر ضروری سزاوں و سختیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء پڑھائی کی طرف راغب ہوسکیں۔ پہلی جماعت سے گریجویٹ لیول تک تعلیمی فیس تمام سرکاری سکول و کالجوں میں ختم کردی جائے، اور مفت کتابیں فراہم کی جائیں۔ تاکہ ملک میں خواندگی بڑھے اور جہالت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ یہ وقت ہے فیصلہ کرنے کا کہ آنے والی نسلولوں کے بہترین مستقبل کی خاطر منصوبہ بندی و سوچ سمجھ مکمل کر لی جائے۔ آج کچھ عملی اقدامات کیے گئے تو آنے والا کل روشن ہوگا۔