نقطہ نظر

انتخابی اصلاحات کس طرح کی؟

فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی پر پاکستان میں سیاسی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی کا دارومدار ہے-

ہندوستان کے تازہ ترین انتخابات میں 814 ملین ووٹروں میں سے دو تہائی افراد نے ووٹ دیئے- سیاسی پارٹیوں نے نتائج تسلیم کئے، کامیاب ہونے والوں کو مبارکباد دی اور آگے کا سفر شروع ہوگیا- انتخابات کی ساکھ کے بارے میں کسی قسم کے سوالات نہیں اٹھائے گئے- ہندوستان کے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا-

پاکستان میں صورت حال کافی مختلف ہے- انتخابات کے ایک سال بعد، بعض قومی سطح کی سیاسی پارٹیاں انتخابات کے نتائج کو چیلنج کررہی ہیں، پاکستان کے الیکشن کمیشن (ECP) کی جانبداری پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور دھاندلی کے 'ثبوت'، فراہم کئے جارہے ہیں- حکومت کے جواز کو چیلنج کیا جارہا ہے اور ملک میں جمہوریت کی پائیداری کے بارے میں تشویش کا اظہار ہورہا ہے-

دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم فرق دونوں کے الیکشن کمیشنوں کا ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کا الیکشن کمیشن خودمختار ہے؛ پاکستان کا الیکشن کمیشن آزاد تو ہے لیکن اسے اختیارات حاصل نہیں ہیں، یا پھر اس کے عمل سے ظاہر یہی ہوتا ہے- انتخابات کے انتظامات میں مدد کرنے والے ایگزیکیوٹیوز اور عدلیہ کے افسروں پر اس کا موثر کنٹرول نہیں ہے.

نیز اس بات کے خاصے مواقع موجود ہیں کہ کئی ایک عناصر مختلف مراحل پر انتخابی عمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں جسکے نتیجے میں انتخابات کے نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں- الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنے گزشتہ بیانات میں سے کم از کم ایک بیان میں جو اس نے پریس کو دیا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ انہیں کنٹرول نہیں کرسکتا اور اب اپنی حکمت عملی کے پانچ سالہ منصوبے میں، جسے اس نے وسیع پیمانے پر مشورہ کرنے اور بہتر بنانے کے لئے جاری کیا ہے، اسی جانب اشارہ کیا ہے- کمیشن کا یہ کہنا درست ہے کہ اسکے اختیارات ناکافی ہیں-

الیکشن کے سلسلہ عمل میں ایگزیکیٹیو اور عدلیہ کے افسروں کی تعیناتی اور تبادلے؛

مہموں پر مصارف کے حدود کی بڑے پیمانے پر قانون شکنی؛ گہری تفتیش ---بلکہ امیدواروں کی بے عزتی---

ووٹ ڈالنے اور ووٹوں کی گنتی میں خلاف ورزیوں کے دستاویزی ثبوت؛

ٹائپ اور گنتی میں ہونے والی غلطیاں (دانستہ یا غیر دانستہ) جو نتائج تیار کرنے میں ہوسکتی ہے؛

الیکشن کے متعلق شکایات کو تیزی سے حل کرنے کے نظام کی غیرموجودگی؛

بیشمار ووٹوں (1.5ملین) کا مسترد ہونا اور انکی گنتی نہ ہونا؛

ECP کی ہدایات کے باوجود کم از کم 114 حلقوں میں ریٹرننگ افسروں کا نتائج کے فارم دینے سے انکار صریحاً ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو 2013 کے الیکشن کے دوران رونما ہوئیں- انھیں دور کرنے کی ضرورت ہے-

یہ بدعنوانیاں نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی پہلی بار ان کی جانب اشارہ کیا گیا ہے- تاہم، اس بار بدعنوانیوں کے دعوے، جنھیں سیاسی طور پر دھاندلی کہا جارہا ہے، اونچی آوازوں میں کئے جارہے ہیں اور ختم ہونے میں نہیں آرہے، جسکی وجہ شائد یہ ہے کہ سیاسی اتفاق رائے سے ECP کے سربراہ اور اراکین کی تعیناتی کے بعد ووٹروں کی اور پارٹیوں کی توقعات یہ تھیں کہ الیکشن بہتر طور پر منعقد ہونگے اور اس سے ان پارٹیوں نے بھی اتفاق کیا تھا جو ان کے استفعیٰ کا مطالبہ کرنے میں آگے آگے ہیں-

اخلاقی جواز کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ECP کے اراکین کو سوائے مواخذہ کے کسی اور طرح سے ہٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ اعلیٰ عدالتوں کے جج کا مواخذہ صرف سپریم جوڈیشیل کونسل ہی کرسکتی ہے- اراکین کو دیا جانے والا آئینی تحفظ ان کی آزادی اور خودمختاری کا بھی ضامن ہے-

تاہم، ECP کو چاہیئے کہ اپنی ساکھ کو بحال کرنے کی خاطر اوورٹائم کام کرے اور دیانتداری کے ساتھ 2013 کے عام انتخابات کا جائزہ لے تاکہ غلطیوں کا ارتکاب کرنے والے افسروں کی ذمہ داریوں کا تعین، خواہ ان کا تعلق ایگزیکیٹیو سے ہو یا عدلیہ سے، Representative of Peoples Act 1976 کی شق 91 کے تحت ہوسکے-

ہوسکتا ہے کہ آئین کی 18ویں اور 20 ویں ترمیم کے مطابق ECP کے سربراہ اور اراکین کی تعیناتی کا نظام زیادہ شفاف ہوگیا ہو، اور اس کے علاوہ ان کی مدت کا تحفظ بھی ہوا ہو لیکن اس کے بعد جو قانون سازی ہونی تھی نیز ریگیولیٹری اور عمل درآمد سے متعلق جو اصلاحات ہونی تھیں آج تک نہیں ہوئیں تاکہ کمیشن کی آزادی کو اتھارٹی کا درجہ دیا جاسکے-

اسی لئے، یہ آزادی جس کے بارے میں بہت زیادہ آوازیں بلند ہورہی ہیں، اتھارٹی کو مستحکم کرنے اور اس کے نفاذ کا روپ نہ دھار سکیں جو طرح طرح کے ریاستی عناصر اور سیاسی کارکنوں کو قابو کرنے کے لئے ضروری ہیں جن کا مفاد نتائج پر اثرانداز ہونے سے وابستہ ہے-

انتخابی قوانین میں جو خلاء موجود ہے اس کے نتیجے میں افراد اور اداروں کو موقع ملتا ہے کہ وہ الیکشن کے عمل پر اثرانداز ہوں جسے ایگزیکیوٹیو اور عدالتی مداخلت سے محفوظ رکھنا ضروری ہے-

ضروری ہے کہ خود سیاسی جماعتیں سیاسی مذاکرات کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی نوعیت اور وسعت کی وضاحت کریں اور ان کی ہر کوشش کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ وہ ایک شفاف، جوابدہ اور موثر انتخابی نظام تشکیل دیں جس پر عوام اعتماد کریں، جو مستقبل میں ہونےوالے انتخابات کی ساکھ کی اولین شرط ہے- ضروری ہے کہ ECP کو انتخابی قوانین، بجٹ کی منظوری، تنظیمی ڈھانچے اور اسکی سرگرمیوں پر مکمل اختیار حاصل ہو-

دوسرے یہ کہ، مکمل اتھارٹی کے ذریعہ ہی ECP اس قابل ہوگا کہ وہ انتخابات کو پورے کنٹرول کے ساتھ منعقد کرواسکے اور محض اس کا خاموش تماشائی نہ ہو- انتخابات کے عمل کے دوران کمیشن کی جانب سے ایگزیکیوٹیو کو جو احکامات دیئے جائیں وہ ان پر لازمی طور پر عمل کریں-

اس کے علاوہ، انتخابی قوانین کے تحت اتھارٹی کے ماتحت عملے کو مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیئے کہ وہ اسکی جانب سے انتخابات کے انعقاد میں اپنے عملے کو ہدایات دیسکے، انکی منظوری دے اور انھیں ہٹا سکے-

تیسرے یہ کہ، عدلیہ کے افسروں کو انتخابی ذمہ داریاں نہ دیجائیں کیونکہ اس میں مفادات کا ٹکراو ہوسکتا ہے- اس کے علاوہ، اپیلیٹ اتھارٹی کے طور پر عدلیہ کے رول کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابی شکایتوں اور درخواستوں پر تیزی سے عمل درآمد ہوسکے-

لیکن سب سے زیدہ ضروری یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کو جلد مکمل کیا جائے- دونوں ایوانوں میں ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیجائے جس میں جماعتوں کو ان کے تناسب کے لحاظ سے نمائندگی دیجائے، بشرطیکہ پارلیمنٹ میں ان کا کم سے کم ایک نمائندہ موجود ہو، جسے مکمل اختیار حاصل ہو- یہ ایک اچھا آغاز ہوسکتا ہے-

موجودہ عدم استحکام کے پس منظر میں، 2013 کے عام انتخابات کے معیار اور ساکھ کے بارے میں جن شکوک و شبہات کا اظہار ہورہا ہے اور انتخابی عمل میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی پر پاکستان میں سیاسی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی کا دارومدار ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

مدثر رضوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔