اجتماعی دانش کا جنازہ
نواز حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے مگر انداز حکمرانی جمہوری کی بجائے بدستور بادشاہوں والا ہے جو ترقی کا انوکھا ہی تصور لیے ہوئے ہے۔
ریاست کا انفراسٹرکچر انتہائی پسماندہ ہو چکا ہے مگر اسے درست کرنے کی بجائے چند بڑے شہروں میں ایسے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جس کا فائدہ چند ہزار لوگوں تک محدود ہوتا ہے جبکہ پچانوے فیصد شہر، قصبے اور دیہات انتہائی پسماندہ ہیں۔
پہلے بادشاہ اپنی تفریح کے لیے قلعے، باغات اور مقبرے بنواتے تھے اب چند ہزار افراد کے لیے میٹرو بس اور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے شروع کردیئے ہیں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان کتنا ترقی یافتہ ملک ہے۔
تعلیم، صحت اور امن وامان جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ریلوے کو درست کرنے کے لیے وسائل نہیں مگر لاہور میں چند ہزار لوگوں کے لیے میٹرو ٹرین شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔
ریاست کے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا شاید ابھی انہوں نے سیکھا نہیں۔ جس طرح عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے من پسند افراد کو تعینات کیا جارہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہی کچھ جب گیلانی یا زرداری کرتے تھے تو میڈیا، عدلیہ اور نواز شریف یک زبان ہو آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ عدلیہ نوٹس لیتی اور اگلے تین ماہ خوب تماشا لگا رہتا۔
جمہوری عمل کے خلاف غیر جمہوری قوتیں سازشیں تو کرتی ہی ہیں خاص کر ایسے ملک میں جہاں جمہوریت ابھی نوزائیدہ ہو۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور سب کے سامنے ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا جب نام نہاد آزاد میڈیا حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دیتا اور آزادی اظہار رائے کی آڑ میں حکومتی ارکان اور وزراء کی پگڑیاں اچھالتا تھا۔ لیکن پی پی پی حکومت کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اُف تک نہ کی اور سخت سے سخت تنقید کو برداشت کیا۔
گو کہ مسلم لیگ نواز کا موقف ظاہراً یہی ہوتا تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن درپردہ نوازشریف چیف جسٹس اور میڈیا کی پشت پناہی کرتے رہے اور جمہوری حکومت کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکائے جس میں سب سے اہم ایشو این آر او کی مخالفت تھا۔
نوازشریف جن کی واپسی این آر او کی بدولت ہی ممکن ہوئی تھی، بڑی ڈھٹائی سے این آر او کی مخالفت کرتے رہے اور میمو کیس میں تو حد ہی ہو گئی جب وہ کالا کوٹ پہن کر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی مدد کے لیے عدالت پہنچ گئے۔
خیال کیا جارہا تھا کہ نواز شریف تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پچھلے ادوار کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میاں صاحب نے جیو ٹی وی اور عدلیہ کے ساتھ مل کر جس طرح کی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا اب اقتدار میں آکر جمہوری انداز سے مقابلہ کرنے کی بجائے انہی ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کردیا۔
جیو اور جنگ کے ذریعے ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز بھونڈے پن کی نشانی ہے۔ نوازشریف ماضی میں بھی اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ کچھ اسی قسم کاکھیل کھیل چکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا۔ صورت حال کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی الٹا گلے پڑ گئی ہے۔
اس محاذ آرائی سے ملک میں انتہا پسندی کی ایک نئی لہر پید ا ہوئی ہے۔ روشن خیال اور اقلیتیں تو پہلے سے ہی انتہا پسندوں کے نشانے پر تھے لیکن اب ان کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو روز اول سے انتہا پسندوں کے قبضے میں ہے جس نے مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ہمارا ہیرو بنایا۔ مسلم لیگ نواز کا انتہا پسندوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کا خمیازہ پوری قوم قتل و غارت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
نوازشریف طالبان کے خلاف کوئی واضح موقف اپنانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ طالبان مسلسل پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
پاک فوج بھی کئی سالوں سے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرتی چلی آرہی ہے مگر ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ طالبان کے ساتھ ساتھ اندرون ملک انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے اپنے مخالف یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پر توہین دین کا الزام لگا کر قتل کردیتا ہے۔
اب تو تقریباً ہر روز ہی توہین دین کے مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انتہا پسندوں کے سامنے ہماری انتظامیہ اور عدالتیں بے بس ہیں۔ جس کا حالیہ مظاہرہ ملتان میں ہوا ہے جب ایک انسانی حقوق کی جدو جہد کرنے والے وکیل راشد رحمان کو بھری عدالت میں مخالف وکیل نے قتل کی دھمکیاں دیں تو جج خاموش رہا۔ ملتان میں راشد رحمان کا قتل اور شیخوپورہ میں حوالات میں ایک احمدی خلیل احمد کا قتل واضح نشانیاں ہیں کہ پانی سر سے اوپر چڑھ چکا ہے۔
وکلاء جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ قانون کے رکھوالے ہیں افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ وکلاء کی اکثریت مذہبی انتہا پسندوں کی سب سے بڑی ترجمان بن کر سامنے آئی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے تشدد پر اکسانے والی قراردادیں منظور کرنے کو ایک شرمناک عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نہ سہی کم از کم پاکستان بار کونسل کو ہی اس کا نوٹس لینا چاہیے اور اس پریکٹس کو روکنے کے اقدامات اٹھانے چاہییں۔ ایک عام آدمی کو تو شاید عقل کی کوئی بات سمجھ آجاتی ہو مگر ہمارا نناوے فیصد پڑھا لکھا طبقہ جس میں استاد، صحافی، وکیل اور جج شامل ہیں انتہا پسندوں کے ترجمان بن چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اجتماعی دانش کا قتل عام ہورہا ہے۔
نوٹ: راشد رحمان کے قتل کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جنید حفیظ کا کیس اب کون لڑے گا؟
جنید حفیظ پر جو جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اس کی غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیے جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ہے کہ اس کی زندگی جیل میں بھی محفوظ نہیں اور کوئی جنونی اسے بھی جان سے مار دے گا۔
سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ جنید حفیظ کی رہائی کے لیے ایک منظم اور پرامن مہم کا آغاز کرے۔ سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس تنظیموں کی طرف سے ایک درخواست لکھی جائے جس میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ جنید حفیظ کا کیس ہائی کورٹ کا جج سنے اور حکومت اس کے دفاع کے لیے بہترین وکیل مہیا کرے۔ اس درخواست پر انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کے ہیومن رائٹس کارکنوں کے دستخط کروا کر اسے چیف جسٹس، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کو پیش کیا جائے۔