پاکستان کا دائمی قبض اور انقلابی چورن
144 معالجین کے مطابق انسانی معدے کی خرابی تمام بیماریوں کی ماں ہوتی ہے اور معدے کی خرابی سے ہی بدہضمی، ہچکی، متلی، قے، ہاتھوں میں جلن کا احساس، بھوک کا نہ لگنا، پژمردگی اور چہرے پر افسردگی کے اثرات چھائے رہنا اس کی علامات ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں معالج بطور نسخہ گیسٹوفل سیرپ یا اسی نام سے ملتے جلتے سیرپ معدے کے جملہ امراض میں مبتلا مریضوں کو تجویز کرتے ہیں۔
"اسلامی جمہوریہ پاکستان" کو معرضِ وجود میں آئے رواں سال 14اگست کو پورے 67 برس مکمل ہوجائیں گے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف جیسے آمروں سے پاکستانی عوام کا بنیادی حق "جمہوریت سب کے لئے" حاصل کرنا ایسے ہی تھا جیسے "شیر کے خونخوار منہ سے نوالہ چھیننا"۔
وطن عزیز میں جمہوریت کا حصول سیاسی کارکنوں، صحافیوں، شعراء، دانشوروں، مزدوروں، طلباء اور محنت کش طبقوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ گو کہ پاکستان میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد جمہوریت نے اپنی جڑیں پکڑنا شروع کردی ہیں اور ہر سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا جمہوریت پسند پاکستانی پُر امید ہے کہ جمہوریت کا یہ پودا ایک نہ ایک دن اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہوا تناور درخت بنے گا اور ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں اس کے سائے تلے سکھ کا سانس لیں گی۔
وطنِ عزیز میں جمہوریت کے حصول کی خاطر اب تک کے طے شدہ سفر کے پیچھے، ایک منتخب وزیراعظم تختہ دار پر لٹک چکا ہے، ایک منتخب خاتون وزیر اعظم کو ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ دینے کی سزا کے طور پر اس کے شوہر کو سالوں جیل میں قید رکھا جاتا ہے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو کلائیوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر پہلے پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے اور پھر مبینہ ڈیل کے مطابق عرصہ دراز تک جلاوطن کردیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک اور منتخب وزیراعظم کو عدالتی خواہشات کے مطابق ایک خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کا جرم عائد کرتے ہوئے عہدے سے فارغ کردیا جاتاہے!
حصول جمہوریت کی جدوجہد کے شوق و جنون میں ترقی پسند لکھاری، شعراء، صحافی، طلباء بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ ٹکٹکی سے باندھ کر سرعام کوڑے مارے گئے۔ ملک کی معروف جیلوں سے لے کر شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اور ان گنت صحافیوں، مزدور، کسان رہنماوٗں، طلباء نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا لیاقت باغ میں قتل اور بشیر احمد بلور جس طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے یہ تو کل کی بات ہے!
سیاسی پارٹیوں کو الزام دینے والے ہمیشہ یہی طعنہ دیتے ہیں کہ سب سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی آمر کی کوکھ سے جنم لیا ہے، بجا فرماتے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت نے تمام سیاست دانوں کا سیاسی شعور اب پختہ کر دیا ہے جو اقتدار کے حصول کی خاطر ایک دوسرے کی حکومتوں پر جائز تنقید تو کرتے ہیں جو کہ جمہوریت کا حُسن ہے لیکن پس پردہ سازشیں کرنا اب ان کا شیوا نہیں رہا تبھی تو گزشتہ حکومت دامے، درمے، سخنے اپنی آئینی مدت پوری کرکے پر امن انتقال اقتدار کرکے سبک دوش ہو پائی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ جب بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی بھنک محسوس کرتی ہیں تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یک زبان ہوکر جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اتحاد اور اتفاق کی بات کرتی ہیں۔ جو نہ صرف باعث اطمینان ہے بلکہ یہ تمام سیاسی جماعتیں تعریف و تحسین کی مستحق ہیں!
جبکہ سیاسی قیادت اور تمام پارلیمانی اراکین کو جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کاری کے کوسنے الگ سے دئیے جاتے ہیں۔
سرمایہ داری، جاگیر کا مالک ہونا، یا پھر صنعت کاری نہ تو کوئی غیر اخلاقی فعل ہے۔ اور نہ ہی گھٹیا پن کی علامت بلکہ یہ سب اپنی اپنی ذاتی حثیت میں عوام کی اکثریت کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں اور ملک کی زرعی، صنعتی، معاشی ترقی کا موجب بھی بنتے ہیں۔
پاکستان میں جب بھی عوامی جدوجہد کے نتیجے میں عام انتخابات کے بعد پارلیمانی حکومت وجود میں آتی ہے۔ وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے دن سے ہی عوام کو جمہوریت سے بدظن کرنے کا پروپگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ سیاست دان کرپٹ ہے، ظالم ہے، بے رحم چور، اُچکا اور اٹھائی گیرہ ہے۔
بعضے لکھنے والے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی معاشی و اخلاقی ترقی کا موازنہ لندن، سویڈن اور ناروے سے کرتے ہوئے پاکستان کی عوام کو یہ باور کرواتے ہیں کہ اپنا ملک پاکستان دیکھو اور ناروے کی ترقی کی رفتار! جبکہ دنیا بھر کے مہذب ترین ممالک کی فہرست میں ناروے پہلے نمبرپر آتا ہے پاکستان کا ناروے سے مقابلہ چہ معنی دارد۔ ۔ !!
یہ سب کرتے ہوئے اکثر صاحب تحریر حضرات سادہ لوح قارئین کی اکثریت کو مایوسی کی انتہا تک پہچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔۔۔!!
ایسی انواع اقسام کی تحریریں پڑھ لینے کے بعد قارئین کی اکثریت کو معدے کی تیزابیت، سینے کی جلن، بدہضمی، ہاتھوں میں جلن کا احساس، قے، متلی اور چہرے پر افسردگی کی علامات نمودار ہوتی ہیں اور آنکھوں کے سامنے مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیر چھا جانا تو قدرتی سا عمل ہے۔ یہ تمام تر علامات اچھی طرح وبائی مرض کی طرح پھیلا دینے کے بعد!
ہمیشہ کی طرح آج کل ایک بار پھر پاکستان کے اپنی تئیں بنے ماہر معالجین "انقلاب ہربل فارماسیوٹیکل"‘ کے تحت طرح طرح کی معجزاتی دواؤں کی تشہیر پر کثیر سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اور عوام کو یقین کی حد تک باور کروایا جارہاہے کہ اس دوا کے صبح، دوپہر، شام دو، دو چائے کے چمچ ہر کھانے کے بعد باقاعدگی سے استعمال کرنے سے انشااللہ ناصرف افاقہ ہوگا بلکہ بعد از صحت یابی "انقلاب کا رس بھرا ثمر" بھی جلد آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا۔
دوا کے استعمال کے ساتھ ساتھ کینڈا میں مقیم ایک "صوفی نما"حضرت بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے مریضوں کو ہوالشافی کا کثرت سے ورد کرنے کی تلقین بھی کئے چلے جارہے ہیں۔ جبکہ عوام پر احسان در احسان یہ کیا جارہا ہے کہ تمام تر تشہیر کے ساتھ ساتھ یہ بھی باور کروایا جارہا ہے کہ آپ کے ملک میں پنپتی جمہوریت کے باعث آپ بدہضمی کے جس مہلک مرض میں مبتلا ہیں اس کا علاج فی سبیل اللہ کیا جارہا ہے بس بدلے میں دعاؤں میں یاد رکھیے گا کہ یہ شرط لازم ہے!
دوا کے اجزاء ترکیبی بھی ملاحظہ فرما لیجئے؛
حضرت علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان، شیخ رشید احمد
اگر دوا بھرپور اثر نہ دکھائے تو اس بات کی یقین دہانی سیرپ کی بوتل پر چسپاں "رنگ بدلتے سٹیکر" پر درج ہے کہ حمید گل بمعہ دفاع پاکستان کونسل جیسے تیز بہدف اجزاء کا بھی اضافہ کردیا جائے گا اور بوتل پر چسپاں رنگ بدلتا سٹیکر ہی اصل دوا کی پہچان ہے!
ہمارے نیم حکیموں کو سمجھائے تو کون سمجھائے کہ جمہوریت کے لئے بلکتے، سسکتے مظالم سہتے عوام کو جمہوریت سے بدہضمی ہونے کا خوف دلانا چھوڑ دیجئے حضور!
کیونکہ گیسٹوفل والی تراکیب کا دور اب لد چکا دنیا کے تمام جمہوریت پسند ممالک کی طرح ہم عوام بھی اکیسویں صدی کے باسی ہیں اور ہم اکیسویں صدی کے مطابق ہی اپنی زندگیا ں گزارنا چاہتے ہیں!
جمہوریت سے اگر تھوڑی بہت بدہضمی ہو بھی گئی تو عوام اپنی قوت مدافعت سے بیماری پر ناصرف قابو پالیں گے بلکہ سیاسی قیادت سے بلاخوف اپنے حقوق، مطالبات منواتے رہیں گے کیونکہ یہ ہماری ہی "حق رائے دہی کی پرچی" سے منتخب ہوئے ہیں۔ لیکن اب کی بار جتنا چاہے زور لگالیں "جادو کا سیرپ" فارمیسی کے شلیف پر دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور بلآخر ایک دن ایکسپائر ہوجائے گا۔
تب سیاست دان، صحافی ، دانشور، مزدور، محنت کش، طالب علم مضبوط اور ثمر آور جمہوریت کے دور میں سانس لیں گے۔ جس کے لئے مشترکہ اور مزید جدوجہد اور یقین کامل اولین شرط ہے!