ٹورانٹو میں بلوچ احتجاج
ٹورانٹو: کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو کے مرکز میں واقع 'نیتھن فلپس سکوائر' میں بلوچ ہیومن رائٹس کونسل آف کینیڈا نے ایک مظاہرہ کیا ہے۔
اس مظاہرے میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھرپور مذمت کی گئی۔ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل آف کینیڈا نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زاہد بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ کو ریاستی اداروں نے اس برس اٹھارہ مارچ کو مبینہ طور پر حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا گیا۔
درجنوں مظاہرین نے بڑے بڑے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ جن پر پاکستانی حکومت، فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین میں بلوچ بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین، طلباء و طالبات کے علاوہ کینیڈا میں مقیم سندھی تنظیموں کے اراکین بھی شامل تھے۔
مظاہرین یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ بلوچستان میں سرگرم تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیرمین زاہد بلوچ کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ فوجی آپریشن ختم کیا جائے اور حکومتی اداروں کی طرف سے جبری گرفتاریوں، اغواء اور چھاپوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
کینیڈین حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پاکستانی فوج کی ہر قسم کی مالی و سیاسی امداد بند کردے۔ خراب موسم کے باعث مظاہرین تیز بارش کے دوران بھی بڑے بڑے بینرز اور کتبے لے کر کھڑے رہے۔
ان پر درج نعرے شرکاء اور راہگیروں کی خاص توجہ کا باعث تھے۔ جن پر درج تھا کہ پاکستانی ریاستی ادارے اور فوج بلوچستان کے بے گناہ عوام پر مظالم بند کرے۔
مظاہرین نے پاکستانی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اٹھارہ ہزار گمشدہ بلوچ نوجوانوں کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔
اس موقع پربلوچ ہیومن رائٹس کونسل آف کینیڈا کے صدر ظفر بلوچ، طیبہ، ایاز۔ عروج نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کینیڈین شرکاء کو بتایا کہ بلوچوں کو ان کے بنیادی انسانی، مالی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور وہاں بڑے پیمانے ہر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ بی ایس او آزاد بلوچستان کے نوجوانوں میں بہت مقبول جماعت ہے۔ تنظیم کے مرکزی فیصلے کے تحت بی ایس او کے رہنما لطیف جوہر نے بائیس اپریل سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے، جو زاہد بلوچ کی بازیابی تک جاری رہے گی۔
مظاہرین نے بتایا کہ ان کی امیدیں طالبعلموں اور بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ہیں کہ وہ صورتحال کا نوٹس لیں اور بلوچوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں۔