انتہا پسندوں کی حکمرانی
ہم پاکستان میں ریاست اور معاشرے کو آہستہ آہستہ معدوم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جہاں شکاری ذہنیت، سازشی، اکسانےوالے، منافقین اور رجعت پسندوں کا شور ہے-
رجائیت پسند کچھ پر امید ہیں کہ خاکیوں اور میڈیا کی لڑائی شاید ہمیں ماضی کو یاد کرنے کا حوصلہ دے، اور میڈیا اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو طاقت ور بنانے کی خاطر متوازن نظریوں کی ضرورت کا ادراک اور دونوں میں جو خودسر عناصر ہیں ان کو لگام دینے کا عمل شروع کرنے کی ضرورت محسوس کرے-
امید ایک نہایت قابل تعریف جذبہ ہے کہ یہ ایک بہتر مستقبل کا وعدہ کرتا ہے- خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب آپ مشکل ترین صورت حال میں گھر گئے ہوں جیسے کہ موجودہ بھیانک خواب جیسے حالات ہیں- امید کا پودا یقین کی کونپل سے پھوٹتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور اپنے کو بہتر کرنے کی انسان کی فطری صلاحیتوں کی بنا پر ہوتا ہے-
لیکن کیا یہی امید ایک انکار کی شکل نہیں اختیار کرلیتی جب تکبر، خودپسندی اور تنگ نظری کی وجہ سے طاقت کے دعوے داروں کی فطری صلاحیت بڑے اور اہم مقاصد کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہو؟
یہ تصویر بہت زیادہ دھندلا گئی ہے- اب یہ محض ایک میڈیا گروپ کی طرف سے مقدس ترین لوگوں کی کردار کشی کی گستاخانہ حرکت کا انتقام لینے کیلئے نہیں ہے- اس مسئلے میں اب تعصب اور کمرشل رخ بھی شامل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا حل اور بھی مشکل ہو گیا ہے-
جو چھوٹا الزام ہے وہ یہ ہے کہ جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جو غیر آئینی اور صحافیانہ اخلاقیات کے منافی ہے اور قابل تعزیر جرم ہے-
لیکن جو کیس بنایا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ جیو نے پی ایم ایل ن کی ایما پر فوج/آئی ایس آئی کے خلاف بہتان تراشی کی ہے جو ایک بڑی سازش کا حصہ ہے، یعنی فوج کو اس کے صحیح مقام کے بارے میں یاد دلانا-
پی ایم ایل ن اور جیو کو اس ملی بھگت کی گندگی میں لتھیڑنے کا فائدہ دوسروں کو ہوتا ہے- اس کا فائدہ مخالف جماعتوں کو ہوتا ہے جو وسط مدتی انتخابات چاہتے ہیں، جو وزیراعظم کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں؛ اس کا فائدہ ان میڈیا ہاؤسز کو ہوتا ہے جو ناظرین اور اشتہارات سے آمدنی بڑھانے کے خواہاں ہیں جس پر ایک گروپ کا غلبہ تھا؛ اور یہ خاکیوں کے ہاتھ بھی مضبوط کرتا ہے-
طاقت کے نئے کھیل میں جہاں عدالتوں نے گم شدہ لوگوں کے بارے پیچیدہ سوالات پوچھنے شروع کر دیئے ہیں (اور ایک فوجی سربراہ پر فرد جرم بھی عائد کر دی ہے)، اور صحافیوں میں اتنی ہمت بھی ہوگئی ہے کہ وہ موجودہ جنرلوں کی نیت کے بارے میں سوالات پوچھنا شروع کر دیں-
پی ٹی آئی کو اس بات پر احتجاج کرنے کا حق ہے اگر ان کے انتخابی دھاندلی کے الزامات پر عدالتیں کوئی منصفانہ کارروائی نہیں کرتی ہیں- پی ٹی آئی یہ سوچنے میں شاید حق بجانب ہوگی کہ میڈیا کا ایک حصہ اس جماعت کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کر رہا ہے-
لیکن ان دونوں باتوں کو ایک ساتھ ملا کر بے تکے الزامات کا کیا فائدہ کہ ایک گروپ انتخابی دھاندلی میں ملوث تھا؟ بغیر کسی ثبوت کے ہر بات میں سازش کے غیرصحتمند قومی شغل، خفیہ فنڈ اورغیر ملکی ایجنڈے کا باربار ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
یہ کام میڈیا کا کب سے ہو گیا کہ وہ دوسرے گروپ کو تعزیری انصاف کا سزاوار ٹھہرائے؟
آخر پرانے وقتوں کی اخلاقیات، مخالف پلیٹ فارم سے تعلق رکھنے والوں کا نام لینے یا انکو شرمندہ نہ کرنے اور مل کر آزادی اظہار کی جدوجہد کرنے کا عزم کہاں گیا؟
بعض میڈیا گروپ میں کس طرح کے عناصر گھس آئے ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف مذہب کے نام پر نفرت کا پرچار شروع کر دیا ہے؟
کیا مذہبی نفرت پہلے ہی انتہائی شدید نہیں ہے کہ میڈیا کو بھی جلتی پر تیل ڈالنے کی ضرورت پڑ گئی؟
اور فوج کا بے ساختہ ردعمل کیا تھا جب انہیں احساس ہوا کہ وہ خود حملے کی زد میں ہیں؟ اور کیوں جہادی اور ہر طرح کے کٹر اور متعصب عناصر فوج اور آئی ایس آئی کی مدد کیلئے اور ان سے وفاداری جتانے نکل آئے؟
ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ہم ان خاکیوں سے سنتے آئے ہیں کہ قومی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی عناصر سے ہے- اور ہمیں دبے لفظوں میں یہ ہدایات دی جاتی رہی ہیں کہ غیر ریاستی ایکٹروں کے ذریعے ہم نے جو ناکام کارنامے انجام دینے کی غلطی کی ہے ان کا سبق ہم نے آخرکار سیکھ لیا ہے-
ہمیں سالہا سال سے ٹی ٹی پی سے جنگ اور اپنے بہادر سپاہیوں اور افسروں کو کھونے کے بعد یہ لیکچر دیا جارہا ہے کہ اب اس بارے میں کوئی الجھن نہیں ہے کہ نجی تشدد پسندوں کو جو مذہبی عدم برداشت کے نظریوں کے پرچار کے ساتھ ان پرعمل کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے-
لیکن، ہماری فوج کی قربانیوں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے باوجود، جنہوں نے میڈیا ہاؤس کے حملے کے بعد سب سے پہلے اپنی تلواریں نکالیں وہ لشکر طیبہ، اہل سنت والجماعت، سنی اتحاد کونسل وغیرہ جیسے اثاثوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھے-
کیا ہمارے جنرلوں کو اس کا ادراک نہیں کہ ان غیر ریاستی اداکاروں کو پالنے کا مطلب اسی آگ کو مزید ہوا دینا ہے جو پاکستان کے طول وعرض میں بھڑک رہی ہے اور ہمارے اپنے 50000 ہزار لوگ جس کی نذر ہوچکے ہیں؟ اور ہماری قومی سلامتی کے تقسیم در تقسیم کرنے والے نعرے اور غدار اور محب وطن قرار دینے والے طرزعمل نے پاکستان کو اس کے شہریوں کیلئے کتنا مضبوط اور محفوظ بنا دیا ہے؟
ہم اپنی خودمختاری اور آزادی کے بارے میں اتنے مشکوک کیوں ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے ضمیر اور اپنی زمین کو ایک گانے کے عوض کسی بھی غیر ملکی کے حوالے کر دے گا؟
ہمارے دیس میں قومی سلامتی کے متبادل نظریوں پر گفتگو اتنا مشکل کام کیوں ہوگیا ہے کہ ہماری دیانت اور حب الوطنی سب خطرے میں پڑجاتی ہے؟
کیا دو شہری آپس میں ہندوستان سے تجارت کی حمایت یا مخالفت میں بات نہیں کرسکتے، جبکہ دونوں کا نقطۂ نظر پاکستان کی ترقی اور استحکام ہی ہے؟ کیا دو پاکستانی فاٹا میں فوجی حل کے خلاف یا حامی نہیں ہوسکتے، اور دونوں پاکستانی ریاست اور شہریوں کے تحفظ کو مزید طاقت بخشنے کے خواہش مند نہیں ہوسکتے؟
جو بھی صحافیوں، سیاستدانوں اور خاکیوں کے درمیان اس کھلی معرکہ آرائی کے ابتدائی راونڈ میں کامیاب ہوتا ہے اس سے قطع نظر، یہ ایک خون آلودہ جیت ہوگی- کوئی بھی اس جنگ سے صحیح سالم اور صاف ستھرا اور بلند و بالا کھڑا ہو کر نہیں نکلے گا لیکن یہ طے ہے کہ جو نقصان ان اہم اداروں کی سالمیت اور ریاست کی ساکھ کو پہنچے گا وہ ناقابل تلافی ہو گا-
گرچہ حکومت کے اپنے قائدین، فوج، سیاسی جماعتیں اور میڈیا کو قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، اپنے حملہ آور کتوں کو قابو کرنا پڑیگا، اس پاگل پن کا خاتمہ کر کے اپنی توجہ کو موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کی جانب مبذول کرنا پڑے گا-
لکھاری ایک وکیل ہیں-
ترجمہ: علی مطفر جعفری