پاکستان

'نو سال کی بچیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں'

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ بلوغت کے آثار نمایاں ہوجائیں تو لڑکی شادی کی جاسکتی ہے۔

اسلام آباد: مختلف حلقوں کی تنقید جن میں خود اس کے اپنے کچھ اراکین بھی شامل تھے، کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل نے بدھ کے روز اپنے پہلے دیے گئے فیصلے کی توثیق کردی۔

یاد رہے کہ کونسل نے کہا تھا کہ نو سال کی عمر میں لڑکیاں جوان ہوجاتی ہیں اور اگر بلوغت کے آثار نمایاں ہوجائیں تو وہ شادی کے قابل ہوتی ہیں۔

مولانا محمد خان شیرانی جو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام فضل بلوچستان کے سربراہ بھی ہیں، کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مسلم میرج لاء 1961ء کی موجودہ شقوں میں سے زیادہ تر غیر اسلامی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے دو روزہ اجلاس کے اختتام کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا شیرانی نے سندھ اسمبلی، میڈیا اور معاشرے کے بعض دیگر طبقات کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے کونسل کے فیصلوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

واضح رہے کہ اکتیس مارچ کو سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کردیا جائے۔

جبکہ اٹھائیس اپریل کو بچوں کی شادی کو روکنے کا بل 2013ء تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا، جس کے تحت کم عمر بچوں کی شادیاں کروانے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی تھی۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ ’’کونسل کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ملکی قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے، اور جو لوگ ہمارے فیصلوں کی مخالفت کررہے ہیں، انہیں ضرورت ہے کہ وہ اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ نکاح کسی بھی عمر میں کیا جاسکتا ہے، لیکن لڑکی صرف بلوغت کے بعد ہی اپنے شوہر کے ہمراہ رہ سکتی ہے۔

مولانا نے کہا کہ ایسے قوانین جن میں شادی کے لیے کم سے کم عمر کی وضاحت کی گئی ہے، اسلام کے مطابق نہیں ہیں اور انہیں ختم کردینا چاہیٔے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کونسل پارلیمنٹ کو یہ سفارش کرے گی کہ ان قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا جائے۔

اس کے علاوہ مسلم میرج لاء 1961ء کا سیکشن چھ، جس میں مرد کو دوسری شادی سے پہلے اپنی بیویو ں سے اجازت لینے کا پابند کیا گیا ہے، کے بارے میں مولانا شیرانی نے کہا کہ یہ بھی اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے گیارہ مارچ 2014ء کو منعقدہ ایک اجلاس میں یہ معاملہ پہلے بھی اُٹھایا گیا تھا، اور تفصیلی مشاورت کے بعد زیرِ بحث نکات کی جمعرات کو توثیق کردی گئی۔

ان فیصلوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے ہی نہیں بلکہ کونسل کے دیگر اراکین کی جانب سے بھی سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن نے پُرجوش انداز میں کہا کہ کون نہیں جانتا کہ ایک نوجوان لڑکی سے کب شادی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ’’کوئی بھی شخص جو دوسری یا تیسری مرتبہ شادی کرنا چاہتا ہے، وہ اجازت حاصل کرنے کا بندوبست بھی کرسکتا ہے۔ یہ عوامی مفاد کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

ایک دوسرے رکن نے کہا کہ کچھ بہت زیادہ سنگین نوعیت کے معاملات کونسل کے سامنے زیرِ التواء پڑے ہیں، جنہیں نظرانداز کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ضابطہ اخلاق، تحفظ پاکستان آرڈیننس، الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق اور بہت سے دوسرے مسائل موجود ہیں جن پر ہمیں بات کرنی چاہیٔے، لیکن شادی کے قوانین پر بات کرکے وقت برباد کیا جارہا ہے۔‘‘

آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین فیصلہ کن اختیار رکھتے ہیں اور وہ تمام اراکین کی خواہشات کو مسترد کرسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کونسل کے فیصلوں کی پابند نہیں ہے۔

اسی اجلاس میں کونسل نے ملک میں الکوحل کے مشروبات پر مکمل پابندی کا مطالبہ بھی کیا۔ مولانا شیرانی نے کہا ’’شراب دوسرے مذاہب میں بھی ممنوع ہے، لہٰذا دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے بھی اس کے استعمال پر پابندی لگادینی چاہیٔے۔‘‘

بدھ کے روز مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، جس میں عدلیہ پر زور دیا گیا تھا کہ دونوں فریقین کے مذہبی عقائد کے حکم کے مطابق فیملی لاء کے معاملات کو لیا جائے۔

سول سوسائٹی کی مذمت:

اسلامی نظریاتی کونسل کی ہدایات نے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں برہمی کی لہر دوڑ گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے ڈان کو بتایا ’’خواتین اور بچے ملک کے سب سے کمزور گروپس میں شامل ہیں، اگر بچوں کی شادی کو روکنے کے لیے کم سے کم عمر کے قانونی تحفظ کو ختم کردیا گیا تو خواتین اور بچوں کے استحصال میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘

خواتین کی حثیت پر قومی کمیشن کے سربراہ کا نکتہ نظر تھا کہ مسلم میرج لاء کامیاب رہا تھا، اور ضرورت تھی کہ اس کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاتا، لیکن اس کے بجائے اس کو ختم کیا جارہا ہے۔

کمیشن کے چیئر پرسن خاور ممتاز نے کہا کہ ’’یہ قانون دو سال کی تحقیق اور تمام فرقوں کے مذہبی علماء کی جانب سے غور خوض کیے جانے کے بعد تشکیل پایا تھا۔ لہٰذا اگر کوئی مذہبی عالم اس قانون کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ بنیادی طور پر ان علماء کی حکمت کو چیلنج کررہا ہے۔‘‘