شریعت کے ٹھیکیدار
راشد رحمٰن کو عدالت میں بتادیا گیا تھا کہ انہیں توہین رسالت کا کیس لینے کی بنا پر قتل کردیا جائیگا- اور پھر انھیں قتل کردیا گیا- ٹی ٹی پی کو یقین ہے کہ پولیو کے قطرے مسلمانوں کو نامرد بنانے کیلئے ایک پرفریب مغربی ہتھیار ہیں- اس نے پولیو کے کارکنوں پر حملوں کا سلسلہ فاٹا، کے پی اور کراچی میں شروع کیا ہوا ہے-
نتیجتاً، پاکستان ان تین ملکوں میں شامل ہے جو اس صدی میں آج بھی دوسرے ملکوں میں پولیو برآمد کرتے ہیں- دوسرے دو ملک شام اور کیمرون ہیں- شام پاکستان کو الزام دیتا ہے کہ اسے تشدد پسند اپنے ساتھ لیکر آئے تھے- اور عالمی ادارۂ صحت کا خیال ہے کہ یہ صحیح ہوسکتا ہے-
پاکستان نے کیمرون کو پولیو تو درآمد نہیں کیا لیکن عسکریت پسندی پولیو کی موجودگی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے- بوکو حرام ---نائجیریا کا ایک تشدد پسند گروپ جو اسلام کے نام پر دہشت گردی میں ملوث ہے اور حالیہ دنوں میں 300 لڑکیوں کو اغوا کرچکا ہے اور اس نے ان لڑکیوں کو غلام کے طور پر بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے--- جو، ٹی ٹی پی کی طرح ہر مغربی چیز کے خلاف ہے- ابھی اس کی توجہ کا مرکز نائجیریا ہے- کیمرون میں اس کے محفوظ ٹھکانے ہیں، جس کی وجہ سے نائجیریا اور کیمرون میں پولیو کے خلاف مہم کافی مشکل کام ہے- بوکو حرام، ٹی ٹی پی کی مانند، القاعدہ کی پیروکار ہے اور طاقت کے زور پر اسلامی ریاست کے قیام میں یقین رکھتی ہے-
کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا کا تصور کتنا ڈراؤنا ہے؟ اگر بوکو حرام کی طرف سے نائجیرین لڑکیوں کی غلامی آج کے دور میں ایک فرسودہ اور پاگل پن والا خیال لگتا ہے، تو ٹی ٹی پی کی طرف سے پولیو کارکنوں پرحملے یا اسکولوں کو اڑانے یا پاکستانیوں کی قتل وغارت گری سے لوگوں کو کیا تاثر ملتا ہو گا؟ اور اس بربریت کے بارے میں جو ہمارے بیچ موجود ہے ہمارا ردعمل کیا ہے؟
ایک پرعزم اقلیت جو اس پاگل پن پرعمل کررہی ہے اور اس کا پرچار بھی کررہی ہے اور جیتتی ہوئی بھی نظر آتی ہے، اکثریت بالکل بے بس ہے اور سب ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے، اور انکی قیادت، آپس کے جھگڑوں میں مشغول اور آنے والی تباہی سے بے خبر ہے-
ڈبلو ایچ او کی پاکستانیوں کیلئے سفری پابندیوں کی سفارشات پر گذشتہ ہفتے میڈیا کی ناراضگی کے دوران، ہماری توجہ غیر اہم مسئلوں کی طرف تھی: کیا پاکستان اس سے بے خبر تھا کہ اس پر پابندی لگنے والی ہے؟
کیا حکومت مشیروں کو بہت زیادہ تنخواہ دیتی ہے اورصحت کے کارکنوں کوبہت کم؟ پولیو عوامی صحت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دماغی صحت کا مسئلہ ہے- یہ پاکستان میں اس لئے نہیں بڑھ رہا ہے کہ ہمارا صحت کا شعبہ بدعنوان ہے اور موثر نہیں ہے- اس کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملکی دہشت گرد بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانا غیر اسلامی ہے، اور جو یہ کام کرتا ہے اسے مار دیا جاتا ہے-
ہم نے علامت کے بجائے بیماری کی وجہ جان کراس کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کب کھوئی، یا وہ صبر کہاں گیا جو اپنے غصے کا رخ ان کی طرف موڑے جو واقعی ہماری اس غیریقینی حالت کے ذمہ دار ہیں، بجائے قربانی کے بکروں کے جو بہت آسان ہے.
اگر آپ بوکو حرام کی دلیلوں کو دیکھیں، وہ غلامی پر اپنے خیالات کی حمایت میں دینی تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں- اس طرز فکر میں جو مسئلہ ہے وہ وحی کے غلط مفہوم کا نہیں ہے بلکہ بوکوحرام کا اپنی مرضی کی تشریح زبردستی دوسروں کے حلق میں ٹھونسنے کے پرتشدد عزم اور صلاحیت کا ہے-
بوکوحرام، ٹی ٹی پی اورراشد رحمٰن کے قاتلوں میں کیا چیز مشترک ہے؟ ان سب کو اس بات پر یقین ہے کہ اسلام کو سمجھنے کی اجارہ داری صرف ان ہی کے پاس ہے، اور ان کو دوسروں کے اوپر نافذ کرنے کی اور جو ان سے اتفاق نہیں کرتے انہیں اس کو قتل کرنے کا حق بھی ہے-
راشد رحمٰن کے قاتلوں کی نفرت و حقارت ایک قدم اور آگے تھی- وہ یہ سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت کے ملزم کو کسی قسم کے قانونی حقوق نہیں ہیں، بلکہ اگر کوئی اس کے حقوق کی بات سوچنے کی گستاخی بھی کرتا ہے تو وہ بھی قتل کا سزاوار ہے-
راشد رحمٰن جیسے نیک نیت لوگوں کے وحشیانہ قتل ہمارے معاشرے کیلئے کوئی خطرے کی گھنٹی نہیں سمجھے جاتے ہیں- کیونکہ اکثریت نے راشد رحمٰن کےقاتلوں کی موجودگی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے اور اب ان میں اتنی توانائی بھی نہیں رہی ہے کہ ایسے بھیانک قتل کے بارے میں افسوس بھی کریں-
ایک سوچنے والی اقلیت، جو اب بھی ایسے قتل کا سن کر پریشان ہوتی ہے، ان کا ردعمل دو طرح کا ہوتا ہے:
اپنے آپ کو یاد دلانا کہ یہ جگہ اتنی شکستہ ہو چکی ہے کہ مرمت ممکن نہیں-
ایک عزم کہ اصولوں کی بات نہ کریں جو آپ کو دوسرا راشد رحمٰن بنا سکتے ہیں-
لگتا ہے پاکستان ایک ایسی ٹرین پر ہے جو معقولیت کی حدوں سے آگے نکل چکی ہے- وہ منظم قتل عام، جو راشد رحمٰن جیسے دردمند افراد کو راستے سے ہٹانے کیلئے ہے جن کی وجہ سے انسانی عظمت اور اقدار زندہ ہیں، ہمیں ایک گہری کھائی میں تیزی سے لئے جا رہی ہے- آپ ایک ایسے معاشرے کے بارے میں کیا کہیں گے جہاں اب ایسے وکیل ہونے لگے ہیں جو خود نہیں مانتے ہیں کہ ملزم کو اپنے بچاؤ کا قانونی حق ہے یا جس کے قانونی سرپرست اتنے کمزورہوں کہ ان کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں، جو کہتے ہیں کہ ملزم کو قانونی راستے کے بنیادی حق سے محروم کر دیں گے؟
کسی کا یہ حق کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے اور یہ معاشرہ اسے یہ حق نہ دے، یہ پیمانہ ہے کہ ہم عدم برداشت کی ہر حد پار کر چکے ہیں- ہم میں سے جو ایماندار ہیں وہ ان وکیلوں کو لعن طعن کرتے ہیں جو ان مجرموں کا دفاع کرتے ہیں جو عوام کی نظر میں بدعنوان ہیں اوران کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے-
ہمارے جمہوریت پسند ان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں جو ایک آمر کی نمائندگی کرتے ہیں- ہم میں جو محب وطن ہیں وہ ان کو غدار قرار دے رہے ہیں جو گم شدہ ہونے والوں کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں یا دہشت گردی کے مشتبہ شخص کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے ہوں- ہم میں سے جو لوگ خود کو صالح سمجھتے ہیں وہ تو ایک قدم اور آگے بڑھ جاتے ہیں: وہ ہر اس شخص کو فی الفور قتل کردیتے ہیں جو توہین رسالت کرنے والوں کا مقدمہ لڑتا ہو-
کیا آپ ان لوگوں کے سخت مخالف ہوسکتے ہیں جو آئین کو مسخ کرتے ہیں اور اس کے باوجود اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ان پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے؟
کیا آپ ٹی ٹی پی کے عالمی نقطۂ نظر کو ملک کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اوراس کے باوجود اس بات کے سختی سے حامی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند اگر گرفتارہو جائیں تو ان سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے؟
کیا آپ ان لوگوں کی شدید مخالفت کر سکتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عقائد کی توہین کرتے ہوں اور اس کے باوجود یہ مطالبہ کریں کہ توہین رسالت کے ملزمان کو اس وقت تک بےگناہ سمجھا جائے جب تک ان پر الزام ثابت نہ ہو جائے؟ یہ تمام موقف جو بالکل مناسب ہیں ان کو متضاد سمجھنا ہم نے کب شروع کیا؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم راشد رحمٰن کی موت کے ساتھ ساتھ اپنی اخلاقی اورعقلی موت کا بھی ماتم کریں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری