نقطہ نظر

سندھ حکومت اور نشہِ اقتدار

پہلے مور مرے، پھر جانور، پھر بچوں کی باری آئی اور پھر سارا تھر دم توڑنے لگا-

کیا آپ سندھ کے حکمرانوں کے ذوقِ کمال کو داد نہیں دیں گے کہ اپنی تمامتر ناکامیوں و کمزوریوں کے باوجود انہوں نے دوسروں کے زخموں سے کھلینے کے فن کو کیا عروج پر پہنچایا ہے-

یہ اور بات کہ زخموں پہ مرہم رکھنے کا ہنر اب بھی سندہ کے شاھی دربار کی دہلیز پار کرنے کی جرات نہیں کر پایا مگر تیز دھار چھری سے زخموں کو کس طرح کریدا جاتا ہے اس فنِ یکتا میں وہ روم کے نیرو کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں-

نیرو بیچارہ تو اپنی بانسری میں ہی اتنا مشغول رہا کہ اسے روم میں جلتے انسانی جسموں کی بو بھی بےقرار نہ کر سکی۔ مگر سندھ کے تخت نشیوں کی جمالیات کی وسعت کا عالم تو دیکھیں کہ آپ حضرات نہ صرف جلتی جانوں کے منظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں بلکہ ان ماؤں پہ ہنسنے کا جگر بھی رکھتے ہیں جو مرتے بچوں کو دوپٹے کے دامن کا کفن پہناتی، ان کی ننھی نعشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھانے پہ مجبور تھیں۔

ہمارے یہ حاکمزادے بھوک میں مرتے بچوں کی توہین و تذلیل کا سامان ان لفظوں سے پیدا کرنے کا انوکھا نسخہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کی نظر میں بچوں کی اموات، دراصل انکی پیدائشی محرومی اور اس غیر انسانی غربت کا نتیجہ ہے کہ انکی مائیں بچے کی ڈیلوری کے لیئے کسی بڑے اسپتال کی ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے محض اک دایہ تک پہنچ پائی تھیں-

بچے کا تھر کے قحط میں مرنا اس لئے بھی طے تھا کہ پیدائش کے وقت انکی ماں کو صحرائے تھر میں کوئی ڈاکٹر میسر نہ تھا اس لئے اب اسکی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر کیونکر عائد ہو کہ تھر میں قحط نے تیں سو سے زیادہ بچوں کو لقمہ اجل بنا دیا-

سائیں کا اسمبلی میں یہ کہنا بھی بجا کہ؛

"اب دایہ سے ڈیلوری میں بچہ کو چھک چھکاں (کھینچا تانی) میں باہر نکالنے کی کوشش میں اگر کسی بچے کا سر، بازو یا ٹانگیں دب کر خراب ہو جائیں تو اسکی ذمہ داری مجھ پر تو نہیں ڈالی جا سکتی!"

غصے سے آپ کی آنکھیں کیوں باہر ابل رہی ہیں!؟

یہ ہمارے سائیں کا اندازِ لطافت ہی تو تھا، جس پہ اسمبلی کے اراکین کے قہقے پڑے، اور سائیں اپنے اس اندازِ خطابت پہ مسکراتے بھی رہے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر ارکینِ اسمبلی کو بھی محضوظ کرتے رہے-

تین سو بچوں کی موت پہ یوں تماشہ کرنا تو حکمرانوں کا پرانا شیوہ ہے- یہ بے باکانہ خطاب صرف سندھ میں ہی ممکن ہے جسکو دو بھٹو شہادتوں نے یوں بھی وڈیروں اور سائیوں کے لیئے ایسی شکارگاہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں پہ غلطی سے بھی انکا عوام پہ لیا گیا نشانہ کبھی چوکتا نہیں۔

صرف سندھ میں ہی نہیں ہر سماج و معاشرے میں تعزیت کے اپنے آداب ہوتے ہیں، غمی و شادی کی بھی کچھ تہذیبی روایات ہوتی ہیں۔ یہ بھی درست کہ غربت کے جہاں میں جھانک کر ان کی محرومیوں اور چولھے میں جلتی بھوک کی ہنڈیا اور پیٹ پہ بندھے پتھر دیکھنے کی بصیرت ہر ایک کو عطا نہیں ہوتی مگر کیا موت اور بھوک کا یوں بھی کوئی مذاق اڑانے کی جرات کر سکتا ہے جس طرح صاحبِ حکومت اسمبلی میں بچوں کی موت اور ان ماؤں کی غربت کا مذاق اڑاتے نظر آئے، جو اپنے ننھے فرشتے تپتی زمیں کو سونپ آئیں تھیں-

ان بچوں کی موت پہ دو قل پڑھنا تو درکنار اسمبلی کے ایوان میں جس طرح انکی موت کی منظر کشی کی گئی یہ اس دیس کی روایات میں پہلے تو کبھی رائج نہ تھا- بھوک، بیشک آنکھ کا نور بھی گنوا دینے کی طاقت رکھتی ہے مگر ابھی ممتا کو شکست دینے کے قابل نہیں ہوئی کہ کوئی ماں صرف اسپتال میں لگے اے سی کا مزہ لوٹنے کے لیئے ہسپتالوں میں اپنے بچوں کو دھکے کھلاتی پھرے- مگر یہ سندھ پہ قابض وہ خانوادے تھے جو بھرے ایوان میں یوں کہتے پائے گئے کہ؛

"اسپتال میں زیادہ تر وہ خواتیں تھیں جو اے سی کے مزے لوٹنے آئی تھیں۔"

انکی گوہر فشانی اپنی جگہ مگر ہم نے یہ دیکھا کہ جب اے سی کا مزہ لوٹنے والی ان خواتین میں سے تیس سو سے زیادہ خواتین واپس جا رہی تھیں تو انکی گودوں میں اپنے بچوں کے مردہ جسم تھے جن کو بقول ہمارے حکمرانوں کے، وہ اے سی کے ٹھنڈے مزے لینے کیلئے گود میں اٹھائے گھروں سے نکلی ہونگی-

یہ بے حسی ہی کی نہیں بلکہ بے رحمی کی بھی انتہا تھی جو اس دن اسی سالہ سائیں نے سندھ کے صاحبِ اعلیٰ ہونے کے ناتے ہنستے مسکراتے یوں بیاں کی کہ باقی تمام اراکیں بھی ان کے جوشِ خطابت پہ ہنستے لوٹتے رہے-

باقی تمام سندھ نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل کی مہربانی سے بڑھاپے کا یہ جوشِ خطابت نہ صرف براہِ راست دیکھا اور سنا بلکہ اپنی قوتِ برداشت کو بھی خوب آزمایا۔

مگر میرے خیالوں میں تھر کی وہ پریگننٹ عورت گھومتی رہی جو صبح کا ستارہِ ابھرنے سے بھی پہلے گھر کے گھڑے اور مٹکے اٹھا کر پاتال تک گہرے کنویں سے پانی بھر کر جب دن چڑھے گھر لوٹتی ہوگی تو اپنے ہونے والے بچے کے لئے کیا خواب دیکھتی ہوگی؟

اسکی آنکھوں میں اس بچے کے مستقبل کے کیا سپنے ہوتے ہونگے؟ اور جب اسپتال سے اس نے اپنے بچے کا مردہ جسم اٹھایا ہوگا تو کیا وہ اس اے سی کی ٹھنڈی اور یخ ہوا کا سکھ یاد کرتی ہوگی جو ہمارے چیف کے ذہن کو اپنی لپیٹ میں لے چکی، یا اسکو اپنے دکھ سے جھیلے گئے شب و روز یاد آتے ہونگے؟

شاید یہ دنیا کی واحد حکومت ہو گی جن کے سربراہ اس طرح عوام سے کٹے ہونگے کہ انکو یہ تک معلوم نہ ہو کہ وہ جس اسپتال میں اے سی کی بات کرتے ہیں وہاں تو بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ میں جنریٹر بھی بمشکل چلتے ہیں۔

فرانس کی رانی جیسی معصومیت رکھنے والے ہمارے ان بادشاہزادوں کو یہ تک نہیں پتہ کہ جنھیں سوکھی روٹی تک میسر نہ ہو وہ آنکھیں کیک کے خواب کیسے دیکھ سکتی ہیں؟

کیا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ حضور آپ ہی بتا دیں کہ آپ ہی کی پچھلی چھ سالہ حکومت میں تھر میں محکمہِ صحت کی جانب سے کون سی سہولیات تھرئ عورتوں کو دی گئی ہیں-

ڈاکٹروں کو چھوڑ کر انکو دایہ کے پاس جانا کیوں پڑتا ہے؟ شاید اس لیئے کہ دائیاں وہاں موجود اور زیادہ فعال ملتی ہیں- دائیوں سے ڈیلوری کرانے کا طعنہ دینے سے پہلے اگر حضور اپنے ہی ماتحت ادارے سے معلوم کرتے تو انکو پتہ چلتا کہ تھر میں گذشتہ بیس سالوں سے ابھی تک 181 ڈاکٹروں کی پوسٹ خالی ہیں۔

ڈسٹرکٹ آفس میں صرف تین لیڈی ڈاکٹرز ہیں جبکہ پورے تھر کے باقی تمام تعلقہ اسپتالوں نے قیام سے لے کر اب تک کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں دیکھی۔ ان تھری عورتوں کو دائیوں کا اتنا شوق نہیں جتنا کہ شاہ صاحب کے تصور میں ہے- تھر نے کوئی سرکاری اسپیشلسٹ گاْئناکولوجسٹ آج تک نہیں دیکھی-

بیسک ہیلتھ یونٹ کا تو حال بھی نہ پوچھیں کہ وہ ابھی تک کاغذوں میں سانس لے رہا ہے مگر یہی بتا دیں کہ کیا ان تعلقہ اسپتالوں میں آج تک کوئی بچوں کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر بھرتی کیا ہے-

پچاس سے زائد ڈسپنسریوں کو فعال بنانے کے لیئے ابھی تک ایک بھی ملازم بھرتی کرنے سے قاصر ہمارے شہنشاہَ عالیجناب ذرا دل پہ ہاتھہ رکھ کر یہ دیں کہ اس صورت میں تھری عورتیں اگر دائیوں کے پاس بھی نہ جائیں تو کیا موت کو گلے لگایں؟

شاید آپ کے علم میں یہ بھی نہ ہو کہ تھر کے واحد ڈسٹرکٹ اسپتال کا سالانہ بجٹ 93 لاکھ ہے جس میں سے پچاس لاکھ تو صرف سانپ ڈسنے کی ویکسین پہ خرچ ہو جاتے ہیں- دن بھر میں ہزار او پی ڈی چلانے والے اب بقیہ 43 لاکھ سے کیا اے سی چلائیں گے اور کیا مریضوں کو مفت دوائی فراہم کریں گے-

حضور آپ کو کیا یاد دلایا جائے کہ آپ ہی نے میڈیا میں اعلانات کئے تھے کہ بچوں کی فوتگی کا معاوضہ دیا جائے گا اور جانے کس خیال سے آپ نے وہ رقم بھی بتا دی کہ پانچ لاکھ دیے جائیں گے- اب زخموں پہ نمک چھڑکنے سے پہلے انکا حساب ہی بتا دیجیئے کہ وہ رقم ابھی کہاں تک پہنچی؟

کیا حضور کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر چھاچھرو میں کوئی عورت بیمار ہو تو وہ نزدیکی اسپتال عمرکوٹ جائے گی، جسکے لیئے محض گاڑی کا کرایہ تین ہزار ہے- بالکل اسی طرح اگر ننگر پارکر کی کوئی عورت بیمار ہو کر مٹھی تک پہنچے تو اسکو بھی چار ہزار تک کا کرایہ بھرنا پڑتا ہے!

پھر بھی مرتے بچوں کے لئے مورد الزام یہی دائیاں اور مائیں قرار پائیں تو آپکی سمجھداری کے کیا کہنے!

اس بدنصیب زمین پہ جا کر لوگوں سے انکے حالاتِ زندگی پوچھنے جیسا بکھیڑا تو آپ جناب کرتے نہیں پر اگر کوئی آپکا وزیر باتدبیر آپکو اخبارات پڑھ کر سنانے کا کار خیرِ کرتا ہو شاید یہ خبر بھی آپ تک پہنچ پائی ہو کہ آج کے اخبار میں یہ سرخی تھی کہ قحط زدہ ڈھائی لاکھ لوگوں کے لیئے امداد فی شخص پچاس کلو گندم کی فراھمی کے اعلان کے بعد اب تک صرف دس سے پندرہ فیصد لوگوں تک پہنچ پائی ہے اور ڈپو والے فی بوری ایک سو کرایہ طلب کر رہے ہیں-

مان لیں اب کے سندھ کے اقتدار پہ قابض وڈیرے کا سندھ کے عوام سے رابطہ ختم ہوئے اک عرصہ گذر چکا ہے اور اب یہ سندھ ان کے لیئے کوئی مفتوحہ سلطنت ہے، جسکی لوٹ کھسوٹ انکے فرائض کا حصہ ہے ورنہ کوئی تھر کی غربت پہ ٹھٹھہ لگانے والوں کا گریبان پکڑ کر پوچھتا کہ اور تو چھوڑیں ہر اسمبلی ممبر کو سالانہ آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں- پچھلے چھ سال سے انکی حکومت ہے، کوئی ان سے ذرا پوچھے تو ان سالوں میں اس چالیس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کا کیا ہوا؟؟ ان میں تھر کے لیئے کون سی ترقیاتی اسکیمیں دی گئیں؟

سندھی اخباروں نے لکھا کہ پھریں مور مئا، پوئے ڈھور مئا، پوئے بارن جی واری آئی ائیں پوئے سجے تھر ساھ ڈنو۔ (پہلے مور مرے، پھر جانور مرنے لگے، اور بلاخر بچوں کی باری آئی اور پھر سارا تھر دم توڑنے لگا)-

میرے خیال میں اس ترتیب کو درستگی کے بعد یوں پڑھا جائے کہ پہلے حکمرانوں کا ضمیر فوت ہوا، پھر اجتماعی ضمیر کو موت آئی اور پھر ہم نے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظ آخر:اسمبلی میں موجود مرد و خواتین ہاتھ دیئے ہنسنے اور بے شرمی سے چپ رہنے کے بجائے اگر تخت نشینوں، اپنے حاکموں کی اس بدکلامی و بد زبانی کو زبان سے روکنے کی جرات کریں تو شاید اپنے مرتبے کا کچھ حق ادا کر سکیں- ان حکمرانوں سے پوچھیں کہ تھر کی ماؤں اور بچوں کی زچگی کے پیچیدہ معاملات پہ تھریوں کی غربت کا مذاق اڑانے اور تذلیل کرنے سے پہلے ذرا ہمیں بھی بتلا دیں کہ اسمبلی میں کتنے ایسے اراکین موجود ہیں جن کی دائیوں کے ہاتھوں ڈیلیوری ہونے کے باوجود ابھی تک سر و دماغ سالم حالت میں کام کر رہے ہیں؟

اور یہ بھی راز اب کھول ہی دیں کہ کتنے ممبران، ماہر گائنا کولوجسٹ کے ہاتھون پیدا ہونے کے باوجود اقتدار کی ہوا میں اپنا دماغ درست رکھنے میں کامیاب رہے ہیں --- اور ذرا یہ بھی پوچھ لیں کہ اقتدار کا نشہ کیا بھنگ کے نشے کی مانند ہوش وحواس میں رہنے کے بھی قابل نہیں چھوڑتا؟


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امر سندھو

امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔