دنیا

'میراہاتھ پاکستانی فوج کے ساتھ ایک تجربے میں ضائع ہوا'

امریکی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے میں مصری نژاد برطانوی مبلغ ابوحمزہ نے کہا کہ وہ نوجوانی میں ایک نائٹ کلب چلاتے تھے۔

نیویارک: نفرت اور تشدد کی تبلیغ کرنے والے برطانوی مبلغ کا کہنا ہے کہ ان کا ہاتھ 1993 کے دوران لاہور میں پاکستانی فوج کے ساتھ ایک تجربے کے دوران اچانک دھماکہ ہوجانے کی وجہ سے ضائع ہوگیا تھا۔

چھپن سالہ مصطفیٰ کمال مصطفیٰ المعروف ابو حمزہ مصری نے یہ بات امریکی ریاست مین ہٹن کی وفاقی عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہی۔

یاد رہے کہ ابو حمزہ المصری کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا مقربِ خاص سمجھا جاتا ہے۔

ابوحمزہ کے خلاف غیر ملکی شہریوں کے اغواء، قتل اور دہشت گردی سمیت مجموعی طور پر 16 مختلف مقدمات درج ہیں۔

بعض مقدمات کی سماعت 17 اپریل سے امریکی عدالتوں میں جاری ہے۔

ابو حمزہ کو القاعدہ کے لیے عطیات جمع کرنے، افغانستان میں طالبان کے لیے کمپیوٹر سینٹر کے قیام اور اہم سفارت کاروں کے اغواء کے مختلف منصوبوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔

عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شدت پسند مصری نژاد برطانوی مبلغ ابو حمزہ المصری کو گزشتہ روز امریکا کی ایک وفاقی عدالت میں پیش کیا گیا۔

مقدمے کی سماعت کے دوسرے دن اپنے دفاع میں بات کرتے ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ 1992ء کے دوران خانہ جنگی کے شکار افغانستان میں بحالی کے کاموں کے سلسلے میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔

سوویت یونین کے خلاف جاری جہاد کے خاتمے کے بعد جب سعودی شیخوں نے لاکھوں ڈالرز کے منصوبوں سے اپنے فنڈز نکال لیے تو انہوں نےپاکستانی فوج کے ساتھ اپنے جہادی ساتھیوں کی مدد شروع کردی۔

ابوحمزہ نے گواہی دی کہ ایسے علاقوں میں جہاں تصادم جاری تھا، فوج کی مدد کرنے کے لیے حکمت عملی سے آگاہی اور دھماکہ خیز ڈیواسز کے استعمال کا تجربہ مطلوب تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک پاکستانی انجینئر کے ساتھ مل کر ایک اسٹیل پلیٹ ڈیزائن کی تھی، جو ایک وسیع منصوبے کا حصہ تھی، جسے دوسروں کے تیار کردہ دھماکہ خیز ڈیوائس کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

ابوحمزہ نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی فوج کو کچھ عربوں سے متعارف کروایا تھا، جن میں ایک مصری بھی شامل تھا، جس نے ایک پاکستانی خاتون سے شادی کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جب فوج میں کام شروع ہوگیا تو انہیں لاہور شہر میں ہندوستانی سرحد کے نزدیک رہائش فراہم کردی گئی۔

ابوحمزہ نے کہا کہ میں بہت زیادہ حیران ہوا کہ سڑک پر واقع دو گھروں کے درمیان خالی زمین پر کس طرح دھماکہ خیز مواد کا تجربہ کیا گیا۔

’’مجھے بہت حیرت ہوئی کہ پڑوسیوں نے آخر کیوں شکایت نہیں کی یا پولیس کو نہیں بلایا۔ وہ سب فوجی فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ یہ عرب لوگ اپنی صحت اور حفاظت کے حوالے سے بہت لاپرواہ تھے، دھماکہ خیز مواد کے لیے تیار کیے گئے ایک کنٹینر میں کمانڈر الیاس نے جانے سے پہلے ایک ڈیٹونیٹر ڈال دیا۔

ابوحمزہ نے کہا کہ انہوں نے اس ڈیوائس کو اُٹھا لیا، جو بہت زیادہ گرم ہوگیا تھا، لیکن وہ پہلے سے دی گئی ہدایت کے مطابق اس کو باتھ روم میں نہیں پھینک سکے اس لیے کہ وہاں کوئی موجود تھا۔

اس وقت انہیں محسوس ہوا کہ دھماکہ ہوگیا ہے، اور کوما میں جانے سے پہلے انہیں خون بہتا دکھائی دیا۔ انہیں لاہور میں ملٹری ہسپتال لیے جایا گیا، جہاں ان کوصحتیاب ہونے میں ایک مہینہ لگ گیا۔

ابوحمزہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس کے بعد لندن چلے گئے جہاں انہوں نے مصنوعی ہاتھ لگوایا۔ اس کے چھ ماہ بعد 1994ء کی ابتداء میں اپنے بچوں کو لینے کے لیے و ہ دوبارہ پاکستان آئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہسپتال کا علاج بہت ہی بہتر تھا اور انگلینڈ کے ڈاکٹر بھی اس حوالے سے جان کر بہت متاثر ہوئے تھے۔

اس سے پہلے آنے والی رپورٹوں میں یہی بتایا جاتا رہا تھا کہ ابوحمزہ کا ہاتھ افغانستان میں ضایع ہوا تھا، تاہم ابوحمزہ کے اس بیان کے بعد وہ تمام رپورٹیں غلط ثابت ہوگئی ہیں۔

ابو حمزہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان کے ہاتھ سے متعلق داستانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سعودی عرب میں چوری کے جرم میں ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔

بعد میں وہ اس وقت خاصے جذباتی ہوگئے، جب ان سے 1995ء میں سربرینیکا میں بوسینیائی مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں پوچھا گیا۔ جس کی وجہ سے جج کیتھرین فاریسٹ سات منٹ کا وقفہ دینے پر مجبور ہوگئیں۔

ابوحمزہ نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنے برطانوی پاسپورٹ میں قانونی طور پر اپنا نام تبدیل کروایا اور 1996ء کے وسط میں مسلمان جنگجوؤں کو رقم اور کاریں فراہم کرنے کے لیے انہوں نے بوسینیا کا سفر کیا تھا۔

انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ آپ محض پچیس پاؤنڈادا کرکے باآسانی اپنا نام تبدیل کرواسکتے ہیں، اور وہ مثال کے طور پر آپ کو جون ٹریولٹا کا نام دے دیں گے۔

تین بیویوں کے شوہر اور نو بچوں کے باپ ابوحمزہ اکیس برس کی عمر میں 1979ء میں انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

عدالت کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے اپنی جوانی کے ابتدائی ایام کے دوران اپنی مصروفیات کا تذکرہ کیا۔ ان کے بیان کے مطابق مغربی طرز زندگی اور امریکی اسٹائل ان کا خواب تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں مصر سے لندن اس لیے آیا تھا کہ میں مغربی طرز پرچلتے ہوئے پیسہ کماؤں اور عیش وعشرت سے زندگی گزاروں۔

ابوحمزہ کے مطابق ابتدائی دور میں انہوں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک نائٹ کلب بھی قائم کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس نے برطانیہ میں رہتے ہوئے انجینئرنگ کی تعلیم شروع کی تو ان کی مطالعے میں نائن الیون میں حملوں کا شکار ہونے والا ورلڈ ٹریڈ سینٹر بھی شامل تھا۔

جب حملوں میں امریکا میں ٹاور زمین بوس ہوئے تو میں نے اس کارروائی کی تعریف کی تھی۔

اے ایف پی کے مطابق ابو حمزہ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ لندن سے انجینیرنگ کی ڈگری لینے کے بعد سینڈ ہارسٹ میں ملٹری اکیڈمی میں بھرتی ہو گیا۔

اسلام کی طرف میلان کے بارے میں ابو حمزہ نے بتایا کہ میری برطانوی اہلیہ اسلام سے قربت کا باعث بنیں۔

شادی کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی منگوایا، سگریٹ نوشی ترک کر دی اور رمضان المبارک کے دوران نائٹ کلبوں کا کام بند کر دیا اس کی جگہ قرآن کا درس دینا شروع کر دیا۔ اسلام کے بارے میں انہوں نے نو کتابیں تصنیف کیں۔