پاکستان

پاکستان نے ڈبلیو ایچ او سے پندرہ دن کی رعایت مانگ لی

عالمی ادارۂ صحت نے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں پر سفر سے پہلے پولیو ویکسین لینے کی شرط عائد کی تھی۔

اسلام آباد: وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں نے بدھ کے روز ایک ہنگامی مشاورتی اجلاس میں عالمی اداۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے بیرونِ ملک سفر کے حوالے سے دی گئیں تجاویز کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈبلیو ایچ او سے درخواست کی جائے گی کہ وہ ویکسین کی خریداری میں پاکستان کی مدد کرے اور پاکستانی مسافروں پر پابندیوں کے نفاذ سے قبل کم از کم دو ہفتوں کی رعایتی مدت کی اجازت دی جائے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پولیو کا وائرس پاکستان، کیمرون اور شام سے دنیا کے باقی ملکوں میں برآمد ہورہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے ان ملکوں کے لوگوں کے لیے یہ لازم قرار دیا تھا کہ انہیں پولیو ویکیسین پلانے کے بعد ہی بیرون ملک سفر کی اجازت دی جائے۔

اس اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ سب سے پہلا سوال جو ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیما سعید عابد سے کیا گیا وہ یہ تھا کہ ان پابندیوں کا نفاذ کب ہوگا۔

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’ڈاکٹرنیما سعید نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ یہ پابندیاں پانچ مئی سے ہی مؤثر ہوگئی تھی، جب ان کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ ان سے گزارش کی گئی کہ وہ ڈبلیو ایچ او کے ہیڈکوارٹر سے ان پابندیوں میں پندرہ دن کی نرمی کے لیے بات کریں۔‘‘

ڈاکٹر نیما سعید نے اجلاس کو یقین دلایا کہ وہ پندرہ دنوں کی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔

اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کے کنٹری ڈائریکٹر نے پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف کی تعریف کی کہ انہوں نے ڈبلیو ایچ او کی پابندیوں کا نفاذ پنجاب میں چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر کردیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی 62 فیصد افراد پنجاب میں آباد ہیں۔

اس اجلاس کے بعد ڈبلیو ایچ او کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ان کی ٹیم جنیوا پر زور دے کی کہ وہ پندرہ دنوں کی رعایتی مدت کے لیے پاکستانی حکومت کی درخواست کو منظور کرلے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ یہ درخواست بعض شرائط کے ساتھ منظور کرلی جائے گی۔مثال کے طور پر ان میں سے ایک شرط یہ ہوسکتی ہے کہ ریاست کے سربراہ کو لازماً قومی سطح پر ایک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرنا چاہیٔے اور جس قدر جلد ممکن ہو ایئرپورٹ پر حفاظتی ٹیکوں کے کاؤنٹر قائم کیے جائیں۔

لیکن ایک خودمختار ماہرِ صحت نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہتر گھنٹے گزر جانے کے باوجود سفری پابندیوں سے نمٹنے یا ڈبلیو ایچ او کی شرائط کی تکمیل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ درحقیقت وزارتِ صحت اور پولیو کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے وزیراعظم کے سیل کے درمیان رابطے کی کمی ہے۔

ڈبلیو ایچ او سے کہا گیا ہے کہ وہ تقریباً ستائیس ہزار مسافروں کے لیے پولیو ویکسین فراہم کرے ، آنے والے دنوں میں جن کے بیرون ملک جانے کی توقع ہے۔

تاہم ذرائع کے مطابق یہ ڈبلیو ایچ او کا نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) کا کام ہے جو دنیا بھر کے لیے ویکسین فراہم کرتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق حکومت تمام متاثرہ اور انتہائی خطرے کی زد میں آنے والے علاقوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے اعلٰی معیار کی سرگرمیوں کا ثبوت دے۔

لیکن شمالی اور جنوبی وزیرستان کے حوالے سے اس معاملے کا ثبوت پیش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ مناسب دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ پابندیاں کم از کم بارہ مہینے تک برقرار رہیں گی۔

اس سال کے محض پہلے چار مہینوں کے دوران 59 پولیو کیسز سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے پاکستان کا اپنا چودہ برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی پابندیاں شام اور کیمرون کے لیے اس قدر سخت نہیں ہیں، اس لیے کہ شام میں اس سال پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہےجبکہ کیمرون میں چار کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کے اہلکار نے وزیرِ مملکت برائے صحت کا بھی حوالہ دیا جنہوں نے اس سے پہلے پاکستان پر ان پابندیوں کے نفاذ پر عالمی تنظیم کی مذمت کی تھی۔

مذکورہ اہلکار کے مطابق درحقیقت یہ انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن (آئی ایچ آر) کی کمیٹی تھی، جس نے یہ پابندیاں نافذ کی تھی۔ ڈاکٹر اسد حفیظ اس کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے، لیکن وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔

اس کے علاوہ بدھ کے روز وزیرِ مملکت برائے قومی ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت نے ڈبلیو ایچ او سے کہا ہے کہ وہ ویکسین کی فراہمی میں مدد کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے پابندی کے نفاذ میں دو ہفتوں کی رعایت مانگی ہے۔

وزیرِ مملکت نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو نظرانداز کردیا تھا۔