حملے اور یاد ماضی
جواعتماد ہم پاکستانیوں کو جوڈیشل کمیشنوں پر ہے وہ اگراتنا افسوس ناک نہ ہوتا تو خاصا مضحکہ خیز ہوتا- یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی عاقل اور بالغانسان یہ کہے کہ اسے جنوں اور پریوں پر یقین ہے-
ذرا سوچئے: کراچی میں حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پورے ملک میں عمومی ردعمل، ایک مطالبہ تھا--- آپ صحیح سمجھے--- ایک جوڈیشل کمیشن- اور حکومت نے فوراً ہی یہ مطالبہ پورا کردیا، اور اس حملے کی تحقیقات کرنے کیلئے چیف جسٹس نے تین ججوں کو نامزد کردیا-
مجھے اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ تینوں ججوں کا انتخاب بالکل صحیح ہے، وہ اپنے متعلقہ بنچوں کے راست باز ممبر ہیں- لیکن ان سے یہ امید رکھنا، کہ جو ان حملوں کے پیچھے ہیں وہ واقعی انکا پتہ چلالیں گے، ایسا ہی ہےجیسے کہ انسپکٹرکلاؤزو شرلک ہومز بننے والا ہے-
منظر کی مناسبت سے، جب سلیم شہزاد، ایک بہادرتحقیقاتی صحافی کو اغوا کرکے، اس پر تشدد کر کے 2011ء میں مارڈالا گیا، تو آئی ایس آئی پر اس میں ملوث ہونے کا الزام لگا تھا- میڈیا کے بہت شوروغوغا مچانے پر، ایک جوڈیشل کمیشن جسٹس ثاقب نثار کی سرکردگی میں بنایا گیا تھا-
ہفتوں کے سوچ بچار کے بعد، کمیشن نے اپنی رپورٹ 10 جنوری 2012ء کو مکمل کرکے پیش کردی- اس میں جو نتیجہ نکالا گیا تھا اس میں الزام لگایا گیا تھا، " مختلف متنازعہ عناصر دہشت گردی کی جنگ میں ملوث تھے جس میں پاکستانی ریاستی اور غیرریاستی عناصر جیسے طالبان اور القاعدہ اور غیر ملکی سب شامل تھے "
اور جہاں تک مجھے علم ہے وہاں پہنچ کر معاملات رک گئے اور وہیں رکے ہوئے ہیں- اس طرح کی مبہم معلومات کی بنا پرنہ آپ کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ مقدمہ چلاسکتے ہیں- اور ہمیشہ یہی ہوا ہے- لیاقت علی خان سے لیکر بے نظیر بھٹو تک، کئی سیاست دانوں کا قتل ہوا ہے لیکن قوم کو آج تک پتہ نہیں ہے کہ ان تمام ہلاکتوں کے پیچھے کون لوگ تھے- ہمیں اب تک یہ نہیں پتہ کہ ہم ضیاءالحق سے چھٹکارہ دلانے کا سہرا کس کے سر باندھیں-
اگر پی پی پی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں یہ نہیں جان پائی کہ بے نظیر کی موت کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، تو ہم کیا واقعی ایک جوڈیشل کمیشن سے حامد میر پر حملہ کرنے والوں کو شناخت کرنے کی امید کرسکتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ زرداری کی حکومت نے بھی کبھی اس مسئلہ کو ترجیح دینے کی ضرورت نہیں سمجھی-
عمر چیمہ، اسلام آباد کے ایک دوسرے صحافی نے اپنے اغوا اور تشدد کی ہولناک داستان سنائی جنہیں اغوا کرنے والوں نے کہا کہ انہیں اپنی کہانیوں کی وجہ سے یہ سزا دی جارہی ہے- وہ ، سلیم شہزاد کی طرح دارالحکومت سے دن کی روشنی میں اٹھائے گئے تھے-
جبکہ بظاہر، صرف چند حقایق ایسے ہیں جن کی بنا پر کسی انٹیلیجنس ایجنسی کو حامد میر پر حملہ کا مرتکب سمجھا جاسکتا ہے، ہاں کچھ واقعاتی شہادتیں ضرور ہیں- کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جن کو حامد میر کے اسلام آباد سے کراچی کے سفر کے بارے میں علم تھا اور قاتلوں کا ایک گروہ حامد میر کے انتظار میں وہاں پر موجود تھا- ایسے بہت سارے ادارے آپ کے ذہن میں نہیں آتے ہیں جن کے پاس ایسے ذرائع ہوں جن میں ایسی کارروائی کرنے کی صلاحیتیں ہوں-
لیکن چند سال پہلے طالبان نے اسلام آباد میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور اس کی ذمہ داری بھی اعلانیہ قبول کی تھی- لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے ایسے ریاستی یا غیرریاستی ادارے اپنے ملوث ہونے کا نشان بہت کم چھوڑتے ہیں-عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلینے والے وہ حملے جن پرطاقتور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی چھاپ نظر آتی ہے، ان کی تحقیقات پولیس کیلئے سرگرمی سے کرنا یوں بھی ممکن نہیں ہوتا ہے- اس کے علاوہ بھی سچائی کو چھپانے میں پولیس کا کردار کس پر عیاں نہیں ہے- بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس جگہ کو دھوکر ساری عدالتی شہادتیں مٹا دینے کے عمل کو کون بھول سکتا ہے-
لہٰذا، یہ بات قابل فہم ہے کہ پولیس کی تفتیش پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہوتا - لیکن جوڈیشل تحقیقاتی کمیشنوں پر ہمارا اندھا اعتماد بھی کوئی بہت درست بات نہیں ہے، کیونکہ ان اعلیٰ اداروں کے کارناموں کا بھی پورا احوال ہمارے علم میں ہے- مجھے یاد نہیں آتا ہے کہ آج تک کسی ایک کمیشن نے ان بڑی شخصیتوں پر حملوں کے کسی بھی قاتل کی شناخت کی ہو-
لیکن پھر ہم کیوں اپنے ججوں سے امید کریں کہ وہ ماہر جاسوسوں کی طرح کامیاب ہوں جہاں ہماری پولیس ناکام ہوجاتی ہے؟ آپ اپنی عدالتوں کی حالت دیکھ لیجئے: جہاں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات جمع ہیں اور برسوں تک چلتے ہیں- گواہوں، استغاثہ اور وکیلوں کو باربار عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں کیونکہ پیشیاں ہمیشہ ملتوی ہوتی رہتی ہیں-اور ہم مستعدی کے ان قابل فخر نمونوں کوماہر جاسوس سمجھ کران سے ہر قتل کے فوری حل کی امید لگالیں اور جو ہر جرم کا کامیابی سے پتہ چلالیں؟
یہ سچ ہے کہ وہ کسی کو بھی سوال جواب کیلئے بلانے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ انٹیلیجنس کے ارباب اختیارکے ساتھ نرمی کا رویہ رکھتے ہیں-
اگر ہماری پولیس اور ہمارے جج اپنے فرائض نہیں ادا کرسکتے ہیں تو پھر کون باقی بچا ہے؟ ساری دنیا میں، قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کی تحقیقات کا کام انجام دیتے ہیں- کبھی کبھی ججز بھی سیاسی معاملات کو جانچتے ہیں جس کا نتیجہ مجرمانہ پیروی کی صورت میں نکلتا ہے- لیکن کہیں بھی ججزکسی جرم کی تفتیش براہ راست نہیں کرتے کہ یہ انکا کام نہیں ہے-
جوڈیشل کمیشنوں کو تعینات کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ غیر جانب دار ہونے کا تاثر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت بھی بری الذمہ ہوجاتی ہے- بامقصد کارروائی کا تاثر ملتا ہے، اور پھر ہم ایک ایسی کیفیت سے گذرتے ہیں کہ سب کچھ بھول جاتے ہیں-
تو وہ لوگ جو حامد میر کی تحقیقاتی کارروائیوں سے کسی نتیجے کی امید رکھتے ہیں انہیں خواب دیکھنا مبارک ہو-
ترجمہ۔ علی مظفر جعفری۔
لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔