دنیا

کسان کے مددگار ڈرون

کم قیمت اور مؤثر ڈرون سے اب کھیتی باڑی کے عمل پر نظر رکھنے کے علاوہ فصلوں کو ضائع ہونے سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔

شمالی سان فرانسسکو میں انگوروں کے باغات کے مالک ریان کنڈے کوئی اوسط درجے کے کسان نہیں بلکہ وہ فضائی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس سے زراعت کو بہتر بناتے ہیں۔

اس کیلئے وہ فضا سے لی جانے والی تصاویر ، سینسر اور روبوٹکس کی مدد سے بہتر فصل حاصل کررہے ہیں۔

وہ کھیتی باڑی میں ' ڈرون ' سے معاونت لے رہے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی دیگر بہت سے کسان بھی اب یہ ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ وہ یا تو بازوؤں والےچھوٹے طیارے سے اپنے فصلوں کی تصاویر لیتے ہیں یا پھر ایک زائد بلیڈ والے پلیٹ فارم یعنی کواڈ کوپٹرز سے مدد لے رہے ہیں۔ ایسے ڈرونز پر جی پی ایس نظام لگا کر انہیں خود سے اڑنے والے جہاز بنادیا جاتا ہے ۔ ان میں ایک سادہ پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمرہ لگایا جاتا ہے۔ پھر ایک سافٹ ویئر کے ذریعے تمام تصاویر کو جوڑ کر ایک بڑی تصویر بنائی جاتی ہے تاکہ گھٹتی اور بڑھتی ہوئی فصل پرنظر رکھی جاسکے۔

یہ ڈرون صرف چند میٹر بلندی سے لے کر 120 میٹر تک کی اونچائی تک اڑائے جاتے اور اس کیلئے امریکہ میں خصوصی اجازت نہیں لینا پڑتی۔ اس سے کسانوں کو فصل کی جو تصویر ملتی ہے وہ زمین سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر مہنگی سیٹلائٹ تصاویر کے مقابلے میں یہ بہت سستا نسخہ ہے۔ ایک ڈرون کی قیمت ایک ہزار ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔

ڈرون کا استعمال آسان ہوتا ہے ۔ ان میں رفتار ناپنے والے میٹر، پریشر، مقناطیسی میدان کے سینسر اور سمت درست رکھنے والے جائرہ ہوتےہیں۔ اس کے علاوہ جی پی ایس ماڈیولز، طاقتور پروسیسر، اور ڈجیٹل ریڈیو ہوتے ہیں۔ آٹو پائیلٹ کا سافٹ ویئر بھی اوپن سورس ہے اور اسے خریدنے کیلئے بہت رقم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کسانوں کا ڈرون ڈرون تین طرح سے کسانوں کے کام آتا ہے۔ اس کے ذریعے فصلوں کا پیٹرن، آب پاشی کے مسائل، مٹی کی صورتحال اور یہاں تک فصل پر کیڑا لگنے جیسی چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ پھر کیمرہ انفراریڈ تصاویر بھی لے سکتے ہیں۔ اور اسطرح صحتمند اور بیمار فصلیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ڈرون ہفتے میں ایک دفعہ، روزانہ بلکہ ہر گھنٹے اڑا کر فصلوں اور اجناس پر مسلسل نظر رکھی جاسکتی ہے۔ اسطرح فصل کی اچھی طرح دیکھ بھال ہوسکتی ہے۔

کسانوں کا خیال ہے کہ ذیادہ ڈیٹا ملنے سے کم محنت سے ذیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسطرح فصل پک جانے پر ٹھیک ٹائم پر اسے کاٹ کر منڈی پہنچایا جاسکتا ہے۔ پھر جی پی ایس گائیڈڈ نظام سے مٹی میں نمی کی معلومات دور موجود نیٹ ورک کو بھی دی جاسکتی ہے۔ سال 2050 تک زمین کی آبادی 9.6 ارب سے ذیادہ ہوجائے گی۔ اگر فصلوں کا بہتر انتظام ہوجائے اور پانی اور کیڑے مکوڑوں کو قابو کرلیا جائے تو اس وقت بھی اتنی آبادی کے خالی پیٹ کو بھرا جاسکتا ہے۔