پاکستان

'لاپتہ بلوچ افراد پر پروگرام سے آئی ایس آئی ناراض تھی'

ممتاز صحافی اور اینکر حامد میر نے کہا ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی سیکیورٹی کے متعلق سخت فکر مند ہیں۔

کراچی: ممتاز صحافی اور اینکر حامد میر نے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد پہلا باضابطہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) ماما قدیر بلوچ پر کئے جانے والے پروگرام ' کیپٹل ٹاک' پر ان سے ناراض تھی۔ **

گزشتہ ہفتے کو قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد یہ حامد میر کا پہلا باضابطہ بیان سامنے آیا ہے جو ان کے بھائی عامر میر نے پڑھ کر سنایا۔

پیغام میں حامد میر نے کہا ہے کہ انہیں ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکیاں ملتی رہی ہیں جبکہ بعض دفعہ ریاستی ادارے صحافیوں کو غٰیر ریاستی اداروں کے نام سے دھمکاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں انہیں سب سے ذیادہ خطرہ آئی ایس آئی سے تھا جو کیپٹل ٹاک پر لاپتہ بلوچ افراد پر پروگرام نشر کرنے پر ان سے ناراض تھی۔

حامد میر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ حملے سے چند روز قبل ایک پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگ ان کے گھر آئے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ صحافیوں کی ایک ہٹ لسٹ میں ان کا نام بھی موجود ہے۔ جس پر انہوں نے انٹیلی جنس افسران سے کہا تھا کہ اگر حکام کو اس کی اطلاع ہے تو وہ اسے تحریری طور پر کیوں نہیں دیتے۔

حامد میر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ نومبر 2012 میں ان پر ہونے والے بم حملے کے ملزمان کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاسکا جس کی ذمے داری تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) نے قبول کی تھی۔ اسی طرح ان کے بچوں پر بھی حملہ ہوا جس میں کوئی بھی شخص گرفتار نہیں کیا گیا۔

حامد میر نے کہا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی سیکیورٹی اور تحفظ کے بارے میں سخت فکر مند ہیں اور اگر انہییں کچھ ہوا تو اس کی ذمے داری حکومت اور ریاستی اداروں پر عائد ہوگی ۔

انہوں نے کہا وہ جیو نیوز کی نشریات کو بند کروانے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس سے قبل سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے جیو کو بند کرانے کی کوشش ناکام بنادی گئی تھی اور اسی طرح جیو نیوز کی ٹیم عوامی تائید سے اس کوشش کو بھی ناکام بنادے گی۔

حامد میر نے کہا کہ ان کی لڑائی پاکستان کی بقا، قانون کی بالادستی، چھوٹے صوبوں کے حقوق اور ٖغریبوں کی آواز ہے اور وہ اسے اپنی آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی فوج اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا مکمل ادراک رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ فوج کے سیاسی کردار پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی جائے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کی قربانیوں کی قدر اپنے جسم پر گولیاں کھانے والا فرد بہتر طور پر محسوس کرسکتا ہے ۔ا