افغانستان ۔۔۔ انتخابات کے بعد
یہ یقینا ایک افغان حکمران کا غیر معمولی کارنامہ ہوگا کہ وہ حکومت کی مدت پوری کر کے اقتدار کو اگلے منتخب جانشین کےحوالے کرنے کیلئے زندہ رہے- افغانستان کا تاریخی صدارتی انتخاب ابھی ختم ہوا ہے لیکن نتیجہ ابھی دور ہے اور اب تک کسی کی قطعی فتح کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے-
یہ یقینی طور پر برابری کے مقابلہ کی جانب بڑھ رہا ہے- اور کوئی امیدوار پچھلے ہفتے پڑنے والے ووٹوں کا 50 ی صد ووٹ جیتتا ہوا دکھائی نہیں دیتا- جزوی نتائج کی بنا پر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ دو امیدواروں کے درمیان برابر کا مقابلہ ہوگا--- عبداللہ عبداللہ، ایک خوش مزاج سابق وزیرخارجہ اور اشرف غنی، عالمی بینک کے ایک سابق اعلیٰ افسر--- جو انتخابی ریس میں آگے آگے ہیں-
یہ ایک طویل اور ہیچییدہ عمل ہے جس میں مہینوں لگ سکتے ہیں، ویسے دونوں امیدواروں کے درمیان کسی بات پراتفاق ہو جائے تو یہ فوراً طے ہوسکتا ہے- لیکن ابھی اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے - لیکن اس امکان کو بالکل نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا- ایک سمجھوتہ ووٹوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد بھی ممکن ہے، جب ان دونوں اہم امیدواروں کے درمیان صورت حال زیادہ واضح ہوگی-
2014ء کے بعد کے افغانستان میں سیاسی استحکام کیلئے ایک جائز انتخابی نتیجہ بے حد اہمیت کا حامل ہے- اس تاریخی انتخاب کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا، باوجودیکہ ملک کے مختلف حصوں سے بوگس ووٹنگ کی شکایتیں بھی ملی ہیں-
صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ اس بار بھی 2009ء والے صدارتی انتخابات نہ دہرائے گئے ہوں جب کہ دھاندلی اور بیلٹ بکس کو بھرنے کے شدید الزامات لگائے گئے تھے- یہ پورا عمل شفاف اور صاف ستھرا رہتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے- اس تاثر کی کمی ہموار سیاسی تبدیلیوں کے اس عمل پر تباہ کن اثرات ڈال سکتی ہے-
افغان عوام طالبان کے تشدد کے خطرات اور دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر باہر نکلے اور اتنی بڑی تعداد میں ووٹ دے کر اس تاریخی تبدیلی کے عمل میں اپنا کردار ادا کیا-
ستم ظریفی یہ ہے کہ، افغان انتخابات میں نسبتاً بہت کم تشدد کے واقعات ہوئے جتنا پاکستان میں پچھلے سال پارلیمانی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آئے تھے، پورے ملک میں جس میں وہ علاقے بھی شامل تھے جہاں طالبان کا اثر تھا- افغانوں کے مثبت رویہ سے یہ تاثرملتا ہے کہ طالبان کے انتخابات کو مسترد کرنے کے اعلانات کی لوگوں نے پرواہ نہیں کی-
یقیناً، ایک قابل اعتماد انتخاب آگے کی جانب ایک اہم قدم ہے- اس سے داخلی اور علاقائی صورت حال پراہم اثرات مرتب ہونگے جن کا اثرسال کے اختتام پرغیرملکی فوجوں کے انخلا کی وجہ سے افغانستان کے اندر سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے حوالے سے جوتبدیلیاں عمل میں آئینگی ان پر بھی ہوگا-
جمہوری تبدیلیاں اور غیرملکی افواج میں کمی اندرونی گفت و شنید کا راستہ بھی کھول سکتی ہیں، لیکن امن کا حصول ان کے لئے ابھی بھی ایک خواب کی طرح ہے کیونکہ خانہ جنگی کے بھوت کا سایہ ابھی بھی اس تباہ حال ملک پر منڈلا رہا ہے-
یہ انتخابات کارزئی کے صدارتی دور کے خاتمہ کی نشاندہی تو کررہے ہیں لیکن افغانستان کے سیاسی مستقبل پر کارزئی کے اثرو نفوذ کی نہیں- یہ ہوشیار افغان رہنما گمنامی کے اندھیروں میں گم ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا - اسے امید ہے کہ غیرملکی افواج کےانخلا کے بعد بھی ملک کے سیاسی منظرنامے پر اس کا کردار بہت اہم ہے- افغان آئین نے اسے تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا، لیکن اور بہت سارے دوسرے راستے موجود ہیں جہاں وہ اثر انداز ہوسکتا ہے-
کارزئی نے موجودہ امیدواروں میں کسی کی باقاعدہ توثیق تو نہیں کی، اگرچہ کہ ان کی ہمدردیاں واضح طور پر زلمے رسول کے ساتھ تھیں، جو ان کے سابق وزیرخارجہ تھے، لیکن وہ صدارتی دوڑ میں کافی پیچھے ہیں اوران کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے-
کارزئی کے حمایتی پر امید ہیں کہ خواہ کوئی بھی یہ انتخاب جیتے نئے قاید کو سیاسی استحکام قائم کرنے کے لئے ان کی مدد کی ضرورت ہوگی- وہ ابھی بھی بڑی حد تک ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں جب تک انتخابات کا طویل عمل اپنے اختتام کو نہیں پہنچتا -
سنا گیا ہے کہ کارزئی نے اپنی نئی رہایش گاہ صدارتی محل کے قریب ہی بنائی ہے اور انتخابات کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ وہیں رہینگے تاکہ اپنے جانشین کے قریب رہ سکیں- پچھلے مہینے آئین میں چند غیر متعین تبدیلیاں کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے ان کی اپیل نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ وہ بہر صورت اقتدار کے کھیل میں جمے رہنا چاہتے ہیں- کچھ رپورٹوں کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ وزیراعظم کا ایک عہدہ متعارف کرائے جسے وہ خود حاصل کرنا چاہیں گے- لیکن اب تک اس قسم کی کوئی ٹھوس تجویز سامنے نہیں آئی ہے-
ایک پیچیدہ ذہن کے لیڈر کے ورثہ کا تعین کرنا ایک مشکل کام ہے جسے غیرملکی فوجوں کا سہارا ہو، مگراس کے سرپرستوں کو اس پر بالکل بھروسہ نہ ہو- دو مرتبہ منتخب ہونے کی بنا پرکارزئی ایک جائز حکمران تو بن گئے تھے مگر ان کی 2009ء کی کامیابی کو بڑے پیمانے پر جعلی ووٹوں کے فراڈ کے الزامات نے مسخ کردیا تھا-
ان کے خلاف بدعنوانی اور ان کے بھائی کے منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کے الزامات نے ان کی شہرت کو داغدار کردیا تھا- لیکن طاقت کے کھلاڑیوں اور جنگجو سرداروں کے ساتھ اتحاد کی سیاسی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے وہ اقتدار میں رہنے میں کامیاب ہوئے باوجودیکہ امریکہ اور مغربی اتحادیوں میں وہ مقبول نہیں رہے تھے-
کارزئی کی امریکہ پر تنقید شدید تر ہوتی گئی جیسے جیسے انخلا کی تاریخ قریب آتی گئی- انہوں نے اوباما انتظامیہ کو پچھلے مہینے یہ اعلان کرکے ایک جھٹکا دیا کہ امریکی حکومت طالبان کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش کررہی ہے- انہوں نے امریکہ کے ساتھ ایک دوطرفہ سیکیورٹی کے معاہدہ (BSA) پر دستخط کرنے سے انکار کردیا حالانکہ افغان پارلیمنٹ اور لویہ جرگہ دونوں نے منظوری دے دی تھی-
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کارزئی کے جانے سے افغانستان میں طاقت کا موجودہ توازن کیسے بدلے گا- نیا صدر یقیناً BSA کے معاہدہ پر دستخط کردے گا تکہ بقیہ مغربی افواج کی موجودگی 2014ء کے بعد افغانستان میں یقینی ہوسکے- اس سے امریکہ کے ساتھ تناؤ کم کرنے میں بھی مدد ملیگی-
لیکن ایک سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا اس سے ملک کے حالات مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی- نئی افغان حکومت کے سامنے کثیر النوع تبدیلیوں کے اس زمانے میں کئی حوصلہ شکن چیلنجز ہیں-
سیکیورٹی اور معیشت لازمی طور پر اولین ترجیح کے مستحق ہونگے، لیکن افغانستان میں سیاسی اتحاد کو قائم رکھنا اس نئی اور ناتجربہ کار انتظامیہ کا شاید سب سے زیادہ مشکل امتحان ہوگا- نہ تو مسٹر عبداللہ اور نہ ہی مسٹر غنی کے پاس وہ قابلیت یا وہ کرشماتی صلاحیت ہے جو کارزئی کے پاس تھی جس سے وہ قابل عمل اتحاد بنا لیتے تھے جو نسلی تفریق کو کم کر دیتا تھا اور جو انتخابات کی وجہ سے شاید زیادہ تیز ہو گیا ہو-
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔