نقطہ نظر

خستہ حال معاشرے کی اصلاح

ڈونر اور آئی ایم ایف کی امداد کو محض مالیات اور زر مبادلہ کو کھلے ہاتھ صرف کرنے کا لائسنس سمجھا جارہا ہے

سرکاری خزانے کی ابتر صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے ساری حکومتوں نے بے تحاشہ اسراف سے کام لیا اور ٹیکس سے حاصل ہونیوالی آمدنیوں میں اضافہ کے لئے کوئی اقدام نہیں آٹھایا- انھوں نے مستقبل کو گروی رکھ دیا، اور قوم کی مالی حالت کوبہتر بنانے کی اپنی ذمہ داری کو جان بوجھ کر پورا نہیں کیا-

ڈونر اور آئی ایم ایف کی امداد کو محض مالیات اور زر مبادلہ کو کھلے ہاتھ صرف کرنے کا لائسنس سمجھا جارہا ہے نہ کہ اسے سمجھداری سے استعمال کرنے کا پیغام- یہی وجہ ہے کہ ڈونر ممالک کے پارلیمنٹیرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ملٹیلیٹرل ڈونرز ہمیں 'بیمار ملک' کہنے لگے ہیں-

ہمارے روایتی کثیرالطرفہ اور دو طرفہ ڈونرز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہمارا عزم کمزور ہے، ہم مسلسل سیاسی بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں- معیشت اور معاشرہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی خواہش کا فقدان ہے- سرکاری کوششیں محض اس حد تک محدود ہیں کہ منظورشدہ قرضوں کی اگلی قسط حاصل کرلی جائے، خاص طور پر آئی ایم ایف سے- اسی لئے انھیں شبہ ہے کہ آیا پاکستان کی ریاست بجٹ خسارہ پر قابو پاسکتی ہے-

انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ ان معاملات کے تعلق سے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں:

(۱) اخراجات کو کنٹرول کرنا یا ان پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کرنا جن سے نمایاں معاشی فائدے حاصل کرنے کی امید ہو یا (ب) معیشت کو دستاویزی دائرہ عمل میں لانا اور اس بات کا انتظام کرنا کہ متعلقہ ادارے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ہوتے ہوئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس جمع کریں- ایک قدم آگے، ایک قدم دائیں بائیں اور ایک قدم پیچھے چلنے کی پالیسی نے صرف ہمیں دھوکا ہی دیا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ اس کا کوئی نام و نشان نہیں-

لیکن جب ڈونرز اور آئ ایم ایف یہ کہتے ہیں کہ ٹیکسوں سے ہونیوالی آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور مصارف میں کمی کی جائے تاکہ مالیاتی خسارہ میں کمی ہو تو اس کا مطلب ہے وہ اس مسئلے کی طرف ہماری توجہ دلا رہے ہیں- اس مسئلہ کو، جو دائمی طور پر ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، موثر طور پر حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم میکانزم اور ڈھانچے کو ٹھیک کریں جسکے نتیجے میں آخرکار حکومت اور قیادت کے طرز عمل میں تبدیلی آئیگی- یہ ڈونر ممالک اس بات سے لاعلم ہیں اور نہ ہی انھیں تجربہ ہے کہ اداروں میں اس طرح کی تبدیلی کس طرح لائی جاسکتی ہے- اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے جسکی مدد کے لئے اداروں کے ڈھانچوں کو تشکیل دینے کی اور ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہے جو موثر سزاوں کے ذریعے اصلاحی اقدامات کی یقین دہانی کرائیں-

بد قسمتی سے، ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جو کئی دہائیوں سے جمع ہوگئے ہیں فوری طور پر حل کرنے کا معاشی یا سیاسی علاج موجود نہیں، حالانکہ سیاسی عزم ہو تو اس مدت کو کم کیا جاسکتا ہے؛ ڈونر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نظام کے ڈھانچے میں اصلاحات کے لئے کہیں کم مدت دینا چاہتے ہیں جسکی مزاحمت ہمارا خود غرض اشرافیہ کر رہا ہے-

ان معاشروں میں جو معاشی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں کلچر اہم رول ادا کرتا ہے- ایک ایسی ریاست سے جو کرایہ پر کام چلانا چاہتی ہے، یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اچانک اپنا راستہ تبدیل کردیگی اور بنیادی تبدیلیوں کے لئے اقدامات کرے گی- ریاست کو کنٹرول کرنے والے افراد/گروہوں سے بھلا یہ توقع کیوں کی جائے کہ وہ اپنے فائدہ کی خاطر اس گائے سے دودھ نچوڑنا چھوڑ دینگے- اس قسم کے ماحول میں ٹیکس جمع کرنے کے لئے سخت اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ہمارے پاس ٹیکس سے بچنے کی ایک پوری تاریخ ہے جس میں یہ پوچھنے کی اجازت نہیں کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے، آمدنی اور سرمایہ کاری کا ذریعہ کیا ہے- چنانچہ، صرف 'بھٹکے ہوے محب وطن' بیوقوف یا بے یارومددگار لوگ ہی جنھیں ٹیکس کاٹنے کے بعد تنخواہیں ملتی ہیں وہی ٹیکس دیتے ہیں-

ہمارا مالیاتی بحران اس لئے بھی پیچیدہ ہوگیا ہے کہ ہم کفایت شعاری پر موثر طریقے سے عمل نہیں کرتے جسکی ایک وجہ جوابدہی کا کمزور نظام اور بدعنوانیوں کی وجہ سے وسائل کا بھاری زیاں ہے- مثلاً، خدمات کے پست معیار کے باوجود، خواندگی کی 38 فی صد کی شرح اور ابتدائی تعلیم سے بھاری تعداد میں بچوں کے نکل جانے کے باوجود (45 فی صد بچے پرائمری تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں) یہ ذرائع بھاری مقدار میں رقومات ہڑپ کرلیتے ہیں-

اسکی وجہ بدعنوانی، حد سے زیادہ لاپرواہی، میرٹ کے بجائے دیگر بنیادوں پر افراد کی تعیناتی، نگرانی کا کمزور نظام، خدمات فراہم کرنے والوں کو جوابدہی کا پابند نہ کرنا، اور خدمات کو استعمال کرنے والوں کی جانب سے گھٹیا معیار کی خدمات کو برداشت کرنا ہے-

سماجی طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے نتیجے میں سیول سوسائٹی کے تار و پود پارہ پارہ ہو رہے ہیں اور انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے- اور جب غریب اپنےغیر انسانی حالات کا مقابلہ سماج کے دولتمند طبقے کی عیش و عشرت کی زندگی سے کرتا ہے تو اسکی مزاحمت بڑھتی جاتی ہے-

ان لوگوں کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جارہاہے، جو دولت میں کھیل رہے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے- اس بات پر بھی غصہ ہے کہ کم آمدنی والے طبقے پر تو ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے لیکن خدمات عامہ پر صرف کی جانے والی رقومات جنھیں وہ استعمال کرتے ہیں حقیقی اجرتوں کے معنوں میں تیزی سے گھٹ رہی ہیں-

غریب دیکھ رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے اور بیدھڑک خرچ کر رہا ہے، جبکہ ایڈجسٹمنٹ اور دوبارہ ٹیکس کی تقسیم کا بوجھ کم خوشحال طبقے پر ڈالا جارہا ہے- ایک طرف دولتمند طبقہ معاشرے کی جانب ٹیکس دینے کی ذمہ داری کواپنی مرضی سے پوری نہیں کرتا، قیادت دوسری جانب دیکھنے لگتی ہے اور جان بوجھ کر چپ سادھے ہوَئے ہے، جبکہ حکومت کے قائم کردہ نظام اور بزنس میں عوام کا اعتماد مزید گھٹتا جارہا ہے-

انسانوں کی زندگی میں عدم توازن پیدا کرکے ہم بجٹ کو متوازن نہیں بناسکتے- ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو---فوراً ----اس معاملے میں مرکزی جگہ دی جائے، کیونکہ جیسے جیسے غریبوں، ناخواندہ لوگوں(جنکی ہنرمندی محدود نوعیت کی ہو) اور بیروزگاروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے سماجی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے- اس قسم کے حالات بمشکل ہی سیاسی اور سماجی استحام میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، جس کے بغیر نمایاں ترقی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا-

جیسے جیسے طبقاتی تقسیم ہماری نظروں کے سامنے بڑھتی جائیگی اسک نتائج اتنے ہی خطرناک ہونگے-ایسا نہیں ہے کہ اسکی علامتیں نظر نہیں آرہی ہیں، جو لوگ اسے دیکھنا چاہتے ہیں دیکھ سکتے ہیں- ٹی ٹی پی کی طرح کی قوتوں کے نظریات کی جانب بڑھتی ہوئی ہمدردی اور دن دھاڑے ہونے والی ڈکیتیاں اس خطرے کو ظاہر کر رہی ہیں جو آنے کو ہے- ایک کٹھور اور بےپرواہ معاشرہ اس سے بہتر کی توقع بھی نہیں کرسکتا- جب تک ایک روشن خیال اشرافیہ ایک منصفانہ اور عادلانہ سماج قائم کرنے کی کوشش نہ کرے، جس میں کم مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی اور معاشی میدانوں میں آگے بڑھنے کے امکانات فراہم نہ کئے جائیں، کسی اور نتیجے کی امید کرنا ایک احمقانہ سوچ ہوگی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : سیدہ صالحہ

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔