نقطہ نظر

جمہوریت، سیکولر ازم اور مذہبی سیاسی جماعتیں

مذہب کے نام پر کوئی متفقہ سیاسی نظام بن ہی نہیں سکتا کیونکہ مذاہب کے درجنوں دھڑے کسی ایک ایشو پر متفق نہیں ہو سکتے۔

پاکستانی پریس اور میڈیائی دانشوروں نے چند ہفتے پہلے منظر عام پر آنے والی ایک انتہائی اہم خبر کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ خبر کے مطابق اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصر کے سابق صدر مرسی کے 529 حامیوں کو ایک پولیس والے کو ہلاک کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین نے اس سزا کی مذمت کی ہے۔ 529 افراد کو سزائے موت سنانا ایک انسانی المیہ ہے مگر حیرت ہے کہ پاکستانی میڈیا اور اس کے پروردہ دانشور جن کے دلوں میں پوری دنیا کے مسلمانوں کا درد ہے خاموش بیٹھے ہیں۔

تعجب ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی اس سزا کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ پچھلے سال جب مصری فوج کے سربراہ نے اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا اس وقت جماعت اسلامی نے پاکستان میں اخوان کے حق میں زور و شور سے مہم چلائی تھی۔

کوئی ایک ماہ پہلے سعودی عرب کی حکومت نے اسلامی عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک مصر کی سب سے بڑی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ کیونکہ اخوان کے تبدیل شدہ نظریات یعنی جمہوریت پر یقین سعودی بادشاہت کے اصولوں سے متصادم ہیں۔

سعودی حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ کہیں سعودی عوام بھی جمہوریت کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوں۔ اس لیے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اپنے شاہی فرمان میں کہا تھا 'دہشت گرد گروہوں یعنی اخوان المسلمون اور اس کے حامیوں سے روابط پر کسی بھی شہری کو 20 برس تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے جو مذہبی حلقے اخوان المسلمون پر ہونے والی زیادتیوں پر نوحہ کنا ں رہتے تھے ان کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہی عمل اگر کسی امریکی، اسرائیلی یا ہندوستانی حکومت کی طرف سے کیا جاتا تو اس وقت تک اسلام کے محافظ جلسے جلوس اور گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کر چکے ہوتے۔

پاکستان میں اخوان المسلمون کا تعارف جماعت اسلامی کی بدولت ہوا۔ ضیاء الحق کی آمریت میں جب جماعت اسلامی اور اس کے حواری ذرائع ابلاغ پر قابض ہوئے تو قوم کو اخوان المسلمون پر ہونے والے مظالم کی باز گشت سنائی دیتی تھی۔

مصر میں جب تک آمریت رہی اخوان المسلمون زیر عتاب رہی۔ اس کے کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا اور ان پر اپنے نظریات کے پرچار پر بھی پابندی عائد تھی۔ جماعت اسلامی نے اخوان المسلمون کی آئیڈیالوجی ان کی جدوجہد اور پھر ان پر ہونے والے ظلم و ستم کو پاکستانی پریس میں زندہ رکھا۔

کوئی چار سال پہلے تیونس کے عوام آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو اس کے اثرات مصر تک بھی پہنچے اور اسے 'عرب سپرنگ' کا نام دیا گیا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک حکمران اگر پانچ سال سے زیادہ عرصہ حکمران رہ جائے تو اس سے بدبو آنی شروع ہو جاتی ہے۔ عرب ممالک میں کئی دہائیوں سے چند گنے چنے خاندان حکمران چلے آرہے ہیں جبکہ عوام غربت کا شکار ہیں۔

تیونس کی طرح مصر سمیت دوسرے ملکوں لبیا اور شام میں بھی آمریت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ مصر میں ان مظاہروں میں روشن خیال افراد کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کے کارکنوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔

مصری عوام کی لمبی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آمریت رخصت ہوئی اور انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ جس کے نتیجے میں اخوان المسلمون سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور اسے اقتدار بھی مل گیا، لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے یہ جمہوریت کو صرف اقتدار میں آنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی قوانین کی آڑ میں آمریت قائم کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

یہی کچھ اخوان نے اقتدار میں آکر کیا۔ نئے آئین کی تیاری کی آڑ میں 'من چاہی شریعت' نافذ کرنے کی تیاریاں شروع ہو گیئں، روشن خیال جماعتوں نے مخالفت کی اور ایک بار پھر ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں فوج نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

جمہوریت اپنی روح میں ایک سیکولر نظام ہے جس میں تمام افراد بغیر کسی مذہب رنگ و نسل کے برابر سمجھے جاتے ہیں اور ان کو کاروبار مملکت میں کام کرنے کے برابر مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ جمہوریت ایک جدید نظام ہے جس میں عوام اپنے نمائندے چن کر ایک مخصوص مدت کے لیے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ جمہوریت اس وقت دنیا کا واحد نظام ہے جس میں پرامن انتقال اقتدارہوتا ہے۔

آج یورپ اور مغربی ملکوں کی طاقت اور ترقی کا راز ہی ان کے جمہوری نظام میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً جمہوری دور آتا ہے مگر غیر جمہوری قوتوں سمیت مذہبی جماعتیں پاکستان کو سیکولرریاست قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ سیکولر ازم کا تعلق 'لادینیت' سے جوڑ دیا گیا ہے جو سراسر غلط ہے. سیکولرازم میں تمام مذاہب کے افراد اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں آزاد ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کو ہی دیکھ لیں جہاں کبھی کسی مذہب پر پابندی نہیں لگائی گئی۔

یاد رہے کہ پاکستان کے مذہبی حلقوں نے 'عرب بہار' کا خیر مقدم اسلئے کیا تھا کہ عرب ممالک خاص کر تیونس اور مصر میں مذہبی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد تھیں اور انتخابات کے بعد ان مذہبی جماعتوں کی کامیابی کے امکانات روشن ہوئے تھے۔

پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان کے آئین کے تحت جمہوریت پر یقین بھی رکھتی ہیں اور انتخابی عمل میں حصہ بھی لیتی ہیں، حتیٰ کہ جماعت اسلامی شاید پاکستان کی واحد مذہبی سیاسی جماعت ہوگی جس کی قیادت باقاعدہ جمہوری انداز سے منتخب ہوتی ہے مگر اس تمام عمل کے بعد بھی ان کا کردار عملی سیاست میں غیر جمہوری ہوتا ہے۔ اپنے نظریات کو بزور شمشیر منوانا ان کی سیاست کا اہم جزو ہے۔

مسلمانوں کے مزاج کا موازنہ دوسری قوموں سے کیا جائے تو ان کا رویہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں جارحانہ ہے۔ ہم دلیل کے بجائے جذبات سے بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر مذہب اپنے دور میں ایک 'ترقی پسند' مذہب ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ صرف مخصوص رسومات اور عبادات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔

آج مذہب کے نام پر کوئی متفقہ سیاسی نظام بن ہی نہیں سکتا۔ ہر مذہب کی طرح اسلام میں موجود درجنوں دھڑے بھی کسی ایک ایشو پر متفق نہیں ہو سکتے۔ کہنے کو تو قرآن پر سب کا اتفاق ہے مگر ہر کوئی قرآن کی اس تشریح کو درست سمجھتا ہے جو ان کے خلیفہ کرتے ہیں۔

ایک ریاست میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور آج کے جدید دور کا تقاضا ہے کہ آپ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کریں۔ سیکولرازم یعنی 'ہمہ دینیت' کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں۔ سیکولر ریاست میں مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور سیکولر ازم بلا تخصیص مذہب اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ؛

  1. ریاست کا قانون ہر شہری کے لئے یکساں ہوگا

  2. ہر شہری کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہونگے

یورپ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مغربی ممالک تو تین چار سو سال کی آپسی قتل و غارت کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہی انسانیت کی بقا کی ضامن ہے جبکہ مسلمان ممالک ابھی تک قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ میں ایک پاکستانی ٹرک ڈرائیور کا بیٹا برطانیہ کا وزیر ثقافت بنا ہے جو سیکولرازم کی بہترین مثال ہے۔


محمد شعیب عادل لاہور سے شائع ہونے والے میگزین ماہنامہ نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں۔

شعیب عادل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔