کھیلنے کا حق
پہلے انٹرنیشنل ڈے آف اسپورٹس فور ڈویلپمنٹ اور پیس کی پچھلے اتوار (چھ اپریل) کو ہونے والی تقریبات اس بات کا تعین کرنے کے لئے ایک مناسب موقع تھیں کہ آیا پاکستان میں بچوں اور نوجوانوں کو کھیلنے کا حق حاصل ہے یا نہیں-
پچھلے سال اگست میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چھ اپریل پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا یعنی وہ تاریخ جب 1896 میں جدید اولمپکس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تھی- ہر سال اسے منانے کا مقصد تعلیم، انسانی ترقی اور سماجی جھگڑوں کے خاتمے میں کھیل جو کردار ادا کر سکتا اور کرتا ہے اسے اجاگر کیا جائے-
ترقی اور امن کے لئے کھیلوں کے فلسفے کو فروغ دینے کا اچھا خاصا کریڈٹ ایک انٹرنیشنل انیشیٹو (INITIATIVE) کو جاتا ہے جس کا نام ہے "رائٹ ٹو پلے" اور جسے چار بار اولمپک گولڈ مڈل جیتنے والے، ناروے کے جوہان اولوو کوس نے قائم کیا ہے-
تنظیم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ہر ہفتے ایک ملین سے زیادہ بچوں کی مدد کر رہی ہے تا کہ وہ کھیلوں کی تغیراتی طاقت کو "زندگی کے ضروری ہنر اور ایک بہتر مستقبل کی تعمیر" کے لئے استعمال کر سکیں- کھیل اور جسمانی ورزش سے جسمانی اور ذہنی صحت کا فروغ اور اس کے ذریعے لوگوں کے لسانی، نسلی اور طبقاتی تفریق پر قابو پانے کا یہ تصور پاکستان میں نیا نہیں ہے-
ترقی اور امن کے لئے کھیل پر بحث کے دوران جن مسائل یا ایشوز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں-
کیا تعلیمی نظام میں کھیلوں پر قرار واقعی توجہ دی جاتی ہے؟ کیا کھیلوں کی تنظیمیں کو مناسب طریقے سے منظم اور مناسب سہولیات فراہم کی جاتی ہیں؟ حال ہی میں مختلف صوبوں میں منعقد ہونے والے نوجوان / کھیلوں کے فیسٹیولز کے مقاصد میں سماجی امن اور ہم آہنگی کے فروغ میں شامل تھے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تعلیمی ارباب اختیار، کھیلوں اور جسمانی تربیت کو عوامی تعلیم کی اسکیم میں اس کا جائز مقام نہیں دیتے- ہمارے اسکولوں میں موجود کمی کے حوالے سے ہونے والے سرویز میں کھیلوں کے میدان اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا ذکر بھی نہیں ہوتا-اب وہ دن نہیں جب کھیل کے میدان کے بغیر کسی ہائی اسکول کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا-
گو کہ یہ شرط آج بھی ان جگہوں پر لاگو ہونا چاہئے جہاں زمین میسر ہو جبکہ گنجان آباد شہروں میں بھی متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے- مقامی حکومتی ادارے شاید اسکولوں کے گروپ کے لئے کھیلوں کے میدان اور جمنازیم تعمیر کر کے باقاعدہ کھیلوں اور جسمانی تربیت کی سہولیات تشکیل دے سکتے ہیں-
کھیلوں کی تنظیموں کی حالت زار کھیل کے متوالوں کے لئے تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے- دو قومی اولمپک ایسوسی ایشنز کے درمیان جاری رسہ کشی اپنے آپ میں ایک اسکینڈل ہے- ہاکی فیڈریشن وسائل کی کمی اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے مفلوج ہے-
کرکٹ کا کھیل، منتظمین اور کھلاڑیوں دونوں کے درمیان طاقت اور پیسے کے لئے ایک بیہودہ مقابلہ کی وجہ سے زوال کا شکار ہے-
دفاعی اسٹیبلشمنٹ آج بھی قومی اتھلیٹک سین پر غالب ہے لیکن یہ بریگیڈیئر روڈہم جیسے لوگ نہیں فراہم کر رہیں جنہوں نے عبدالخالق اور فضل رازق جیسے ستاروں کی تربیت کی- یا پھر ان ایئر فورس کے افسران کی طرح اپنے وسائل جمع کر کے ہاشم خان جیسے کھلاڑیوں کا سفر شروع نہیں کرا رہیں-
آجکل کے کرکٹرز، جن میں سے زیادہ تر کیری پیکر کے اصطبل سے آئے معلوم ہوتے ہیں، ان کے آجروں اور دیگر کھیلوں کے منتظمین کو احساس ہونا چاہئے کہ پیریوڈک ٹورنامنٹس، سارا سال اسکولوں/کالجوں اور کلبز کی سطح پر ٹیلنٹ گروم کرنے کا متبادل کبھی نہیں ہو سکتے جیسا کہ ہم چند سال پہلے تک تمام اہم شہروں میں دیکھتے تھے-
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہونے والے یوتھ فیسٹیولز میں شرکت کی- تاہم ان سرگرمیوں کو بہت سی وجوہات کی بنا پر تنقید کا بھی سامنا رہا- ایسا لگ رہا تھا کہ کھیلوں اور ثقافت کو سیاسی حکام کے تنگ مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا-
پبلک فنڈز اور بیوروکریٹک چینلز پر حد سے زیادہ انحصار کیا گیا بجائے اس کے کہ رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور مقامی خصوصاً دیہاتی آبادی کو جمہوری طریقے سے خود کو آرگنائز کرنے کا موقع دیا جاتا اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی- قوم پرستی کے جوش کو ابھارنے کے چکر میں ہمسایہ ملکوں کو حریف کے بجائے جس طرح دشمن کے طور پر پیش کیا گیا اس نے شرافت کی تمام حدوں کو پار کر دیا-
کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلوں مثلاً پولو، گالف اور سنوکر کے لئے بھی کئے جانے والے قابل قدر اقدامات سے کسی کو انکار نہیں- یہ ضروری ہے کہ ان منتظمین کی صلاحیتوں اور وسائل سے نیشنل پلاننگ اسٹیج پر فائدہ اٹھایا جائے-
تعلیمی اداروں اور ان کے باہر، اتھلیٹکس اور کھیلوں کے ایک کافی بہتر قومی کیلنڈر ڈیزائن کرتے وقت، مقاصد واضح ہونا ضروری ہے- ان میں یہ مقصد نہایت ضروری ہے کہ لوگوں کو کھیلوں کے میدان میں اپنی صلاحیت نکھارنے اور اسے پیش کرنے کے مواقع، ان کے عقائد، نسل اور سماجی حیثیت سے قطع نظر ہو کر فراہم کئے جائیں-
مختلف مذہبی کمیونٹیز کے بچوں کو آپس میں مل جل کر کھیلنے کی ترغیب دینی چاہئے- حکام کے خالی بیان بازی کے مقابلے میں اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو زیادہ فروغ ملے گا- ہمارے اسپورٹس پلانرز کو احساس ہونا چاہئے کہ اگر افغان کرکٹرز اپنے لوگوں کو وہ شناخت دے سکتے ہیں جو اس سے پہلے ان کے پاس نہیں تھی تو کہ کیا قبائلی آبادی کو کھیلوں کی طرف راغب کرنا ناممکن ہے؟
کس کھیل کی کہاں حوصلہ افزائی کرنی ہے اس کا فیصلہ متعلقہ کمیونٹی کے وسائل اور ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے لیا جانا چاہئے-
مثال کے طور پر دنیا کے مقبول ترین کھیل فٹبال کو پاکستان میں اس وجہ سے نظر انداز کیا گیا کہ اس کے بہترین کھلاڑی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہمیشہ نظرانداز اور امتیاز برتا جاتا رہا- اسی طرح دریاؤں کی سرزمین کی انٹرنیشنل سطح کے تیراک اور کشتی ران پیدا کرنے میں ناکامی، حکام کی تنگ نظر اپروچ کی عکاس ہے-
تاہم کوئی بھی قابل قدر قدم اٹھانے سے پہلے، پالیسی بنانے والوں کو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بچوں/نوجوانوں کے کھیلنے کا حق، ان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور یہ کہ کھیلوں کی تمام سرگرمیوں کا تعلق لوگوں کے جمہوری، روادار اور تعصب سے بالا ہونے کی سپریم ضرورت کے تحت ہے-
اس کے علاوہ، کھیلوں کی ضرورت اس لئے نہیں کہ انھیں ریاست کی عظمت کی نشانی کے طور پر استعمال کیا جائے بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کے لئے ایک کامیاب کھلاڑی کے طور پر ڈھالنے کا کام لیا جانا چاہئے- کھیلوں میں بہتر کرنے اور ان میں کامیابی اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی اور خوشی ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔