نقطہ نظر

مستقبل کی طرف واپسی

اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ مصریوں کی اچھی خاصی تعداد نے مرسی کے اقتدار سے ہٹائےجانے پر اطمینان کا سانس لیا تھا

پچھلے دنوں مصر میں ایک غیرمعمولی واقعہ ہوا- اور نہیں، یہ فیلڈ مارشل عبد الفتاح ال سی سی کا پہلے سے متوقع اعلان نہیں تھا کہ اپنی وردی اتار کر اپنے آپ کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کریں گے- یہ دراصل 529 افراد کو موت کی سزا دینے کے بارے میں تھا جن پر ایک پولیس افسر کے قتل کا الزام تھا جس کا فیصلہ دو دنوں کے مقدمے کی کارروائی کا نتیجہ تھا-

یہ یقیناً ایک قسم کا ریکارڈ ہونا چاہئے- اور یہ اس ریاستی جبر کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہونے کے باوجود اس جبر سے بہت زیادہ ہے جس کا محمد مرسی کی نقائص سے بھری ہوئی انتظامیہ متحمل ہوسکتی تھی- بلکہ حسنی مبارک کے آمرانہ دور کی ریاستی دہشت گردی کے درجہ سے بھی بڑھی ہوئی-

قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو اس وقت جیل میں ہے اور جس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جوپچھلے سال اگست میں ان ایک ہزار آدمیوں کی موت کے ذمہ دار تھے، جب سیکیورٹی افواج نے ایک پرامن مجمع پر فائرنگ کردی جو ایک فوجی انقلاب کے خلاف احتجاج کررہا تھا جس نے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا-

اس میں شک نہیں کہ مرسی کے اکثریتی ووٹوں کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے مخالف امیدوار، احمد شفیق، اسی پرانے سسٹم کے نمائندہ تھے، اور وہ پرانا سسٹم حسنی مبارک کے ساتھ رخصت نہیں ہوا تھا اور جب تک فیلڈ مارشل محمد طنطاوی اقتدار میں رہے فوج نے عوامی مرضی پر عمل پیرا ہونے کا تاثر دیا-

اخوان المسلمین بظاہر مبارک-مخالف جوش وخروش کے جال میں پھنس گئی تھی اور اس کی وجہ سے زیادہ فعال نہیں تھی- پہلے تو اس نے صدارتی انتخابات میں دلچسپی نہیں لینے کا بہانہ بنایا پھر اس کا ارادہ دوبارہ بدل گیا- اس کے بعد مرسی نے اعلان کیا کہ وہ تمام مصریوں کی طرف سے ملک پر حکومت کرینگے-

وہ اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے، لیکن وہ فوج کے ساتھ کسی طرح کے مسائل میں الجھنے میں بہت محتاط تھے، جو اپنی خودمختاری اور امتیازی استحقاق کو برقرار رکھے ہوئے تھی-

سیسی کے 2012 میں فوجی سربراہ اور وزیردفاع بننے کا پس منظر سپریم کونسل آف دی آرمڈ فورسز میں ان کا رول جو اخوان المسلمین اور فوج کے درمیان پوائنٹ مین کا تھا- جس کے مطابق ان کا درجہ ہمدرد کا تھا-

ان کی انتہائی قدآمت پسند شخص کے طور پرشہرت نے ان کی مدد کی، اورشاید اخوان اس سے بھی متاثر ہوئے جس طرح سے انہوں نے نظربند خواتین کا کنوارپن جانچنے کے نہایت قابل ملامت طریقہ کار کوخوش اسلوبی سے حل کیا-

اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ مصریوں کی اچھی خاصی تعداد نے مرسی کے اقتدار سے ہٹائےجانے پر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ کہ مرسی کی انتظامیہ کا طرزعمل بڑی حد تک اسی شدید نفرت کا حقدار تھا-

ان سب کے باوجود، یہ ایک منتخب حکومت تھی، اوراس کو ووٹ ہی کے ذریعے نکالنا جمہوری روایات کو استحکام دینے کا باعث بن سکتا تھا، ایک ایسے ملک میں جودوسال پہلے جمہوریت کے تصور کواختیار کرنے کیلئے بے تاب تھا- اسے ایک دہشت گرد کے طور پر منسوب کرنا بعدازوقت اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پرلگتا ہے-

مصراسلامی دہشت گردی سے یقیناً محفوظ نہیں ہے- لیکن یہ بات جاننے کیلئے کسی خصوصی علم کی ضرورت نہیں ہے کہ انتخابات کا راستہ اسلام پسندوں پر بند کرکے ان کوانتہا پسندی اور تشدد کی طرف ڈھکیلا جا سکتا ہے- مصر کی تاریخ اس افسوس ناک رجحان کی گواہ ہے-

سیسی کی اپنی مقبولیت سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ 30 سال کے بعد حسنی مبارک سے تنگ آچکے تھے لیکن جس سسٹم کا وہ نمائندہ تھا اس سے اتنے نالاں نہیں ہوئے تھے- اگلے مہینے کے صدارتی انتخابات سے اس کی نئی زندگی کی ازسرنو تکمیل ہوگی- اس کا نتیجہ ایک طرح سے قسمت کا فیصلہ سمجھا جائیگا، ابھی تک سیسی کے علاوہ بس صرف ایک امیدوار میدان میں ہے- سیسی کی کامیابی کا مارجن محض ایک علمی جائزہ ہوگا- مبارک ہمیشہ اس قسم کے موقعوں پر 90 فی صد مقبولیت حاصل کر لیتے تھے- سیسی میں ممکن ہے کہ شاید کچھ زیادہ انکساری کا جذبہ ہو--- لیکن یہ کہنا خاصا مشکل ہے کیونکہ شخصیت کا سحرایک مسیحائی لب و لہجہ کے ساتھ پہلے سے موجود ہے- تعجب کی بات نہیں ہے، کہ وہ دوسرے مبارک نہیں بننا چاہتے ہیں، بلکہ جمال عبدالناصر سے اپنے تقابل کو زیادہ پسند کرینگے-

یہ ساری باتیں مصر کے ہمسایوں کی سونچ کے حوالے سے شاید بہت زیادہ خوش آئند نہ ہوں، جہاں مرسی کی حکومت کے خاتمہ پر عموماً سکون کا سانس لیا گیا تھا، اسرائیل سے لیکر شام میں بشارالاسد کی حکومت سمیت سعودی عرب میں- روس کا ولاڈیمیرپیوٹن غالباً سب سے پہلا غیرملکی رہنما تھا جس نے سیسی کواپنی منظوری دی حالانکہ اس وقت تک سیسی نے صدر کے عہدے کیلئے کوئی عندیہ نہیں دیا تھا-

امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے بھی تقریباً غیرمبہم حمایت کا اظہار کیا تھا، دراصل امریکہ کافی عرصہ سے پابندیاں ہٹانے کے موقع کی تلاش میں ہے جو اس نے انقلاب کے بعد لگائی تھی-

سیسی کے بارے میں، اب بلاخوف و خطر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی منظرنامے کیلئے قابل قبول ہوںگے- ان کا کیا ارادہ ہے--- اور وہ اپنی قوم کو سماجی اور معاشی دباؤ اور الجھنوں سے نکالنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں --- یہ دیکھنا ابھی باقی ہے-

لیکن اسلامی یا لبرل، اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے رجحان کے عملی مظاہرے کے بعد اس کے کیا امکانات ہیں کہ مکمل اختیارات کے حصول کے بعد ان کا رویہ کیسا ہوگا؟ اور، زیادہ اہم بات، مصریوں کی اکثریت جب اس کا ادراک کریگی کہ ان کے اعمال اور ووٹوں نے ان کے اس مستقبل کا راستہ متعین کیا ہے تو وہ کیا کریں گے؟

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔