قانون کی بالادستی کا دکھاوا
قانون کی بالا دستی، مستقبل میں بغاوت کے لئے دروازے بند کرنا، ماضی کی غلطیوں کو سدھارنا، آئین کا وقار برقرار رکھنا- جمہوریت ! بیکار ہے سب بیکار-
مشرّف پر مقدمہ نہیں چلنا چاہیے تھا- ان پر جو الزام ہے اس حوالے سے نہیں- اور جن وجوہات کی بنا پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے اس پر بھی نہیں-
اس دنیا کے سعد رفیقیے جو بک بک کر رہے ہیں اس پر مٹی پائیں- مشرّف پر دو وجوہات کی بنا پر مقدمہ چل رہا ہے: ایک تو یہ کہ جس شخص کو مشرّف نے نکال باہر کیا تھا وہ اقتدار میں واپس آگیا ہے، دوسرے مشرّف کے مقدمے میں سیاسی فائدے چھپے ہیں-
فائدہ مند اس لئے کیونکہ مشرّف سے نفرت کرنے کے لئے دائیں اور بائیں دونوں کے پاس اپنی وجوہات ہیں: بائیں والوں کی وجہ بی بی کا قتل ہے جبکہ دائیں والوں کی وجہ لال مسجد اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے-
دونوں سائیڈ سے کسی کو یہ پروا نہیں کہ آخر مشرّف پر مقدمہ کس بات پر چلایا جا رہا ہے- بلکل شکیل آفریدی کے کیس کی طرح: سب جانتے ہیں کہ وہ جیل میں کیوں ہیں، لیکن کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ انہیں کس بات کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے-
آئیں، ذرا ایک نظر مشرّف کے مقدمے پر ڈالیں کہ ان پر چارج کیا لگایا گیا ہے- اپنی صدارت برقرار رکھنے کی کوشش میں نومبر سنہ دو ہزار سات میں انہوں نے کچھ ججز کو نکال باہر کیا تھا اور کچھ کو اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا تھا-
ایک ماہ کے اندر اندر انہیں اپنی وردی اتارنا پڑی- تین ماہ میں انہیں بری طرح انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا- چھ ماہ بعد وہ اپنی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے-
تو ہم آخر کس بات پر مشرّف کو عمر قید یا پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں؟ اس لئے کہ انہوں نے چند ججز کو برخاست کر دیا---- جن میں سب سے بڑے جج کو اپنی نشست واپس مل گئی---- اور چند کو کچھ دن کے لئے اپنے گھروں میں نظر بند کردیا بس؟
ہاں، وہ چلّلا رہے ہیں یہ سب اصولوں کی بات ہے- انہوں نے آئین پامال کیا-
ٹھیک ہے، تھوڑی دیر اسکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں-
نومبر دو ہزار سات میں، مشرّف نے جو کچھ بھی کیا وہ سب اس لئے کیونکہ اکتوبر سنہ انیس ننانوے میں انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا-
ان پر جن تمام باتوں کا الزام ہے وہ سب کبھی ممکن نہ ہوتا اگر نومبر سنہ دو ہزار سات میں اقتدار ان کے ہاتھ میں نہ ہوتا-
یہاں اصل گناہ : اکتوبر انیس سو ننانوے ہے-
اگر بات اصول کی ہے کہ آئین کی پامالی کسی صورت قابل قبول نہیں تو پھر مشرّف پر مقدمہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے تحت چلنا چاہیے-
لیکن پھر بہانے شروع ہوجائیں گے کہ جی انیس سو نناوے کی صورتحال تھوڑی پیچیدہ تھی، کیونکہ سپریم کورٹ نے بغاوت کی توثیق کردی تھی پھر پارلیمنٹ نے بھی آئین میں ترمیم کر کے اسکی توثیق کی تھی-
بڑی دلچسپ بحث ہے یہ، دلچسپ اس لئے کیوں کہ اس کے حساب سے بعض حالات میں بغاوت کی توثیق ممکن ہے- اور انیس سو نناوے، سنہ دو ہزار سات سے اس لئے مختلف ہے کیوں کہ، آخر الذکر کی توثیق نہ کورٹ نے کی اور نا ہی پارلیمنٹ نے-
تو یہ اصول کس چڑیا کا نام ہے؟ مشرّف انیس سو نناوے سے تو بچ کر نکل گۓ لیکن دو ہزار سات سے نہیں بچ سکے- تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ انہیں وہی کام دوبارہ کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دینا یا پھانسی چڑھا دینا چاہیے جس کی کوشش وہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہے تھے؟
کیا آپ اسے اصول کا نام دے سکتے ہیں؟ کیا یہ اصول دفاع کیے جانے کے لائق ہے؟
اگر بغاوت غیر آئینی ہے، تو ہے- اگر یہی پوزیشن ہے اور یہی اصول ہے تو اس بحث کی کہ انیس سو نناوے، دو ہزار سات سے زیادہ پیچیدہ تھا، کوئی گنجائش نہیں-
اور ہم یہاں نسبتاً چھوٹے گناہ پر جرم عائد کر رہے ہیں-
اب چونکہ حالات و واقعات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، چناچہ حالیہ صورت حال پر بات کرتے ہیں-
ٹھیک اسی وقت جب مشرّف پر فرد جرم عائد ہوا ہے اور بھائی لوگ قانون کی بالادستی پر خوشیاں منا رہے ہیں ، مشرّف پر فرد جرم عائد کروانے والی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے ڈائلاگ کر رہی ہے-
یہ یاد رکھیں کہ ٹی ٹی پی کی اصلیت کیا ہے- صاف نظر آرہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے پرتشدد خاتمے کے لئے لڑ رہی ہے اور ایک ایسی غیر جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جس کی جڑیں اسلام کے تنگ نظر اور عدم روادار ورژن تک جاتی ہیں-
اگر ان سے ڈائلاگ غداری نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟
چند ججز کو برطرف کرنا، اس کے فوراً بعد اپنی وردی، اپنی ملازمت حتیٰ کے اپنی حکومت سے ہاتھ بیٹھنا؟قانون کی بالادستی --- یہ ایک جملہ سمجھا کم جاتا ہے، استعمال زیادہ کیا جاتا ہے----- اسے آپ الگ الگ معنوں میں استعمال نہیں کر سکتے-
اسے آپ اپنی سہولت کے لحاظ سے استعمال نہیں کرسکتے- ایک طرف آپ مشرّف کو جیل بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کو آزادی دے رہے ہیں، یہ قانون کی بالادستی نہیں ہے- بلکل نہیں ہے-
خیر، ہم سب جانتے ہیں یہ سیاست کا حصّہ ہے-
مشرّف پر مقدمہ سیاسی بنیادوں پر لیا گیا، سیاسی وزیر اعظم کا، سیاسی فیصلہ ہے-
لیکن ان الزامات کے ساتھ اس مقدمے کی مخالفت کے لئے سیاسی وجوہات بھی موجود ہیں-
مان لیتے ہیں کہ نواز شریف اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں- وہ آرمی پر قابو پا لیتے ہیں- مشرّف کو جیل بھجوا دیتے ہیں وہی شخص جس نے کبھی انکو جیل بھجوایا تھا-
آپ ایک لمحے کے لئے بھی یا نہ سمجھیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے- اگر میاں صاحب چاہتے ہیں، اور واقعی میں چاہتے ہیں تو ایسا کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا-
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے، سیاسی مسئلہ: کیا ہم ایک ایسی سیاسی دنیا میں رہنا چاہیں گے جہاں میاں صاحب، آرمی کی ناراضگی مول لے کر مشرّف کو سزا دلوائی ہو؟
ویسے بھی آہستہ آھستہ نواز شریف کے اندر کا اکھڑ سیاستدان سامنے آرہا ہے- جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے ہمیں پرانے نواز شریف کی جھلک دکھائی ہے- وہی پالیسیاں، وہی آئیڈیاز، وہی قومی ضرورت کے مقابلے میں ذاتی مفادات کو فوقیت دینا- جو چیز ہمیں اب تک دیکھنے کو نہیں ملی وہ ہے تکبر----- لیکن جب دیگر پرانی عادتیں واپس آرہی ہیں تو یہ بھی کچھ ہی وقت کی بات ہے-
نواز شریف کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے- ان کے پاس ایک معتدل چیف جسٹس ہیں- ایک منتخبہ آرمی چیف- جلد ہی ان کے پاس آئی ایس آئی کے نۓ ڈائریکٹر جنرل بھی ہونگے- اگر انہوں نے مشرّف کو دھر لیا تو پھر وہ آرمی پر بھی فتحیاب ہونگے-
کیا واقعی ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر نواز شریف خود کو طاقتور سمجھنے لگیں؟
یاد کریں جب پچھلی بار انہیں یہ مغالطہ ہوا، تب کیا ہوا تھا؟
ترجمہ: ناہید اسرار
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔