طالبان اب افغانستان میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکتے؟
تاریخ خود کو کبھی نہیں دہراتی، اور اگر کبھی ایسا دکھائی بھی دے کہ یہ ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے تو ذرا اس کے قریب جا کر دیکھیں- یہ دائرے یا تو حجم میں بڑے ہونگے یا پھر انکا زاویہ مختلف ہوگا- افغانستان کے حالات و واقعات بھی تاریخ کے اس اصول کی نفی نہیں کر سکتے-
طالبان، دہائی انیس سو نوے کے وسط میں اقتدار پر ابھرے تھے اور سات اکتوبر سنہ ہزار ایک میں، امریکا اور اس کے حلیفوں نے 'دہشتگردی کے خلاف جنگ ' کے نام پر انہیں ملٹری آپریشن کے ذریعہ نکال باہر کیا- بہرحال، بارہ سال تک ایک پرچھائی کی طرح رہنے کے بعد طالبان نے دندان شکن واپسی کی دھمکی دی ہے یا کم زکم بعض لوگ یہی باور کروانا چاہتے ہیں-
کیا ایسا ممکن ہے ؟ مجھے نہیں لگتا- اپنا نکتہ واضح کرنے کے لئے میرے پاس پانچ وجوہات ہیں:
1. افغانستان اب منتشر نہیں ہے:
جب افغانستان میں طالبان کو اقتدار حاصل ہوا تب اسکی حالت دگرگوں تھی- ایک دہائی طویل سنگین جنگ کے بعد مجاہدین کے لالچی، بے رحم اور وحشی سرداروں کے درمیان آپسی لڑائی چل رہی تھی---جسکا کوئی اختتام نظر نہیں آتا تھا- ملک میں ایک ریاست سے مشابہ کوئی بات نہ رہی تھی، قانون کی کوئی پاسداری نہ تھی، 'جس کی لاٹھی اسکی بھینس' والے قبائلی رواج کا دور دورا تھا- اور ان تمام آفات کا نشانہ کمزور اور غریب تھے-
طالبان جیسے ان وحشی جنگجوں کے ہاتھوں ٹوٹے پھوٹے ملک کے لئے امید کی ایک کرن بن کر آۓ- ان میں زیادہ تر مدرسوں کے استاد اور طلبہ شامل تھے- انہیں 'علم الہی کا بےلوث طالب' سمجھا جاتا تھا- طالبان نے ایک سیاسی قوت بننے کے لئے ان مقامی روایات کا فائدہ اٹھایا- جب انہوں نے امن و امان قائم کرنے کے کی صلاحیت اور ارادے کا مظاہرہ کیا تو لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ شامل ہوتے گۓ- جب انہوں نے سرداروں اور مجاہدین کو شکست دینے کے لئے قندھار سے پیشقدمی شروع کی تو صوبے جیسے انکے قدموں میں دھر ڈھیر ہوتے چلے گۓ- ان صوبوں کی فتح کرنا آسان ثابت ہوا، وہ بس اپنے فور-وھیلر پر سوار ہوکر ایک کونے سے دوسرے کونے تک، زیادہ تر بنا کوئی فائر کیے ڈرائیو کرتے - لوگ انہیں اپنا مسیحا سمجھنے لگے-
آج کا افغانستان نہ اتنا منتشر ہے اور نہ ہی مایوس کن- اس کی ایک آئینی حکومت موجود ہے اور یہاں تین بڑے الیکشن ہوچکے ہیں- اس کے پاس آرمی ہے، وزارتیں اور پبلک آفس ہیں- اس کے پاس کمپنیاں ہیں، کاروبار اور شاپنگ مال ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کمزور ہے، الیکشن متنازعہ، افسران بدعنوان ہیں اور کمپنیاں ٹیکس چور ہیں- لیکن اس کے باوجود یہ سنہ انیس سو پچانوے نہیں ہے- افغانستان اب وہ تباہ حال، بھولا ہوا خطّہ نہیں رہا جس پر طالبان نے قبضہ کیا تھا- ہاں کچھ خامیاں ضرور ہیں مگر کوئی ایسا خلا نہیں جسے طالبان پر کرسکیں- بلکہ اگر طالبان کوئی جگہ حاصل کرنا بھی چاہیں تو انہیں اس کے لئے خود کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا- دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن مسائل کا حل طالبان کو سمجھا گیا تھا اب بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو چکے ہیں اور طالبان اقتدار میں نہیں رہے، بلکہ میں کہوں گا کہ انکا تبدیل ہوتے حقائق سے کوئی رابطہ نہیں رہا، انہوں نے ڈھٹائی کے ساتھ اپنی پرانی شکل برقرار رکھی ہے لہٰذا افغانستان کی موجودہ سیاسی و سماجی ڈسکورس میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں-
یہ صورتحال، ایک ایسے گروہ کی فرضی داستان سے مشابہت رکھتی ہے جو ایک دور افتادہ مقام پر جا کر گہری نیند سو جاتے ہیں، اور جب سالوں بعد اٹھ کر اپنے غار سے باہر آتے ہیں تو اپنے ارد گرد ایک مختلف دنیا پاتے ہیں- طالبان کو حیران ہونے اور ان کے مددگاروں کو بدلحاظ جھٹکوں کے لئے تیار رہنا چاہیے-
2. اب افغانستان اکیلا نہیں ہے:
فروری سنہ انیس سو اناسی میں افغانستان سے روسی فوجوں کا مکمل انخلاء ہو چکا تھا- انہوں نے پیچھے صدر نجیب اللہ کی حکومت چھوڑی، جس کے بارے میں پنڈتوں کا خیال تھا کہ دنوں میں نہ سہی ہفتوں میں یہ حکومت ضرور ڈھیر ہوجاۓ گی- لیکن حکومت ناصرف برقرار رہی بلکہ مجاہدین کی یورشوں سے اپنا دفاع بھی کرتی رہی، اس میں سب سے قابل ذکر واقعہ جلال آباد کی لڑائی تھی- نجیب اللہ کی حکومت کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی جو اسے فوجی اور مالیاتی دونوں امداد فراہم کر رہی تھی-
نومبر سنہ انیس سو اناسی میں دیوار برلن گرا دی گئی، اور دسمبر سنہ انیس سو اکانوے میں عظیم سوشلسٹ ریاست، سپر پاور سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی- ماسکو میں سوویت کے جانّشین، روس نے کچھ عرصہ تو کابل کو سپورٹ جاری رکھی لیکن پھر اسے یہ سلسلہ بند کرنا پڑا حتیٰ کہ ایندھن کی فراہمی بھی- اپریل سنہ انیس سو بانوے میں نجیب اللہ کی حکومت ڈھیر ہوگئی-
اس وقت تک امریکا تو پہلے ہی اس خطّے میں اپنی مہم تنہا چھوڑ کر سوویت یونین کی تباہی کا جشن منانے میں مصروف ہوگیا تھا- ناقابل یقین واقعات اس تیزی کے ساتھ واقع ہوتے چلے گۓ جنکی کسی کو اس کی توقع نہ تھی- دنیا بھر کی توجہ سابقہ سوویت ریاستوں، مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور دیگر سابقہ سوشلسٹ ریاستوں پر مرکوز ہوگئیں - نئی عالمی سیاست میں افغانستان کی حیثیت ایک بھولی بسری یاد کی جیسی ہوکر رہ گئی-
عالمی طاقتوں نے اس بدنصیب ملک کو سرد جنگ کے آخری اسٹیج کے بطور استعمال کر کے چھوڑ دیا- انہوں نے ملینز ڈالر پنے اعمال کو ایک یا دوسرے بہانے سے جائز قرار دینے اور ایسے اداروں کی تشکیل میں صرف کیے جنکا واحد کام قتل و غارتگری تھا- اور پھر مطلب پورا ہوجانے کے بعد اس غریب ملک اور اس کی بدنصیب عوام کو انہی اداروں اور تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا- مجاہدین اور ان کے بعد طالبان، عالمی توجہ کے اس بلیک ہول کے خودمختار بن گۓ-بہرحال، موجودہ حقائق بلکل مختلف ہیں- کرہ ارض پر موجود ہر طاقت کا افغاستان میں حصّہ موجود ہے- انیس سو نوے میں افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے پر پوری دنیا کو افسوس ہے- دہشتگردی نے حفاظتی صورتحال کو تبدیل کردیا ہے اور دنیا بھر میں جوابی حکمت عملی از سرنو ترتیب دی گئی ہے- دنیا کو اب ایک مستحکم افغانستان چاہیے اور وہ اس کے لئے کوششیں کر رہے ہیں-
افغانستان سے امریکی انخلاء نہ تو پسپائی ہے اور نہ ہی دستبرداری ہے- امریکا افغانستان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا کیونکہ اس طرح وہ ایک بار پھر دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے- اس مقصد کے لئے اسے دنیا کی دیگر طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہے بشمول ہمارے 'سادہ بہار دوست ' چین کے- اگر افغانستان دوبارہ انتشار کا شکار ہوا تو اسکے نتائج، چین، وسطی ایشیا اور ان سے ہوتے ہوۓ روس کو بھگتنا ہونگے- ان تمام ممالک میں مسلم آبادی موجود ہے اور متحرک علیحدگی پسند تنظیمیں بھی موجود ہیں- افغانستان میں انتشار انہیں سرگرم کر دیگا اور ان ممالک کو اسی بات کا ڈر ہے-
تو بھلے امریکی فوج افغانستان میں رہے یا نہ رہے، ان کے نقش قدم افغانی زمین پر موجود رہیں گے-
3. افغانستان میں امن کا مطلب کاروباری مواقع بھی ہیں:
عالمی سیاست میں افغانستان کو ملنے والی نئی نویلی اہمیت کا سہرا صرف اس کی ہنگامہ خیز حیثیت کو نہیں جاتا- افغانستان میں امن کا مطلب ناصرف افغانوں کے لئے معاشی فائدہ ہے بلکہ اس خطّے میں موجود چین، پاکستان، بھارت اور وسطی ایشیاء سبھی کے فائدہ مند ہے- یہ بعد از سرد جنگ ایک نئی پیشرفت ہے- انیس سو نوے میں دنیا نے افغانستان کو کیوں تنہا چھوڑ دیا تھا اسکی ایک خودغرض وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی کوئی اقتصادی حیثیت نہ تھی-
نۓ اندازوں کے مطابق، افغانستان کی معدنی دولت سو بلین ڈالر تک ہے- افغانستان کے پڑوسی ایسے وسط ایشیائی ممالک ہیں جو تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں اور اس دولت کو جلد از جلد باہر نکالنے کے خواہاں ہیں- یہ تمام پائپ لائنز افغانستان سے گزریں گی اور ان میں سے اکثر افغانستان اور پاکستان دونوں سے-
چین، افغانستان کے معدنی وسائل کے لئے بے چین ہے- اس نے کابل کے جنوب میں، میس اینک کاپر فیلڈ، میں تین عشاریہ پانچ بلین ڈالر کی سرمایا کاری کی ہے- اس پروجیکٹ کا آغاز سنہ دو ہزار آٹھ میں ہوا تھا، اور جلد ہی یہ افغانستان کی تاریخ میں سب سے بڑی غیر ملکی سرمایا کاری کی حیثیت سے پیداوار شروع کر دے گی- چین، امو ریور بیسن کے علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کے لئے بھی سرمایا کاری کر رہا ہے-
بہرحال چین دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے، اس کا تعلق محض کاروباری ہے- لیکن اگر طالبان دوبارہ واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں تو چین اسے نظر انداز نہیں کر سکتا- چین سمجھتا ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں نسلی ویغور کی تحریک کو طاقت بخشنے کے علاوہ اس سے کام کے ماحول میں بھی مشکلات پیش آئیں گی- چینی معاہدہ، اس سال بھارتی سرکاری اور نجی کمپنیوں کے ایک کنزورٹیم کی طرف سے دستخط کیے جانے معاہدے کی وجہ سے بھی کھو سکتا ہے- کنزورٹیم نے دس بلین ڈالر سے زائد میں، صوبہ بامیان میں حاجی گاک خام لوہا کی کانوں کے لئے ہونے والی نیلامی جیت لی ہے- پچھلی دہائی میں بھارت نے افغانستان کو دو بلین کی امداد دی ہے- اکتوبر سنہ دو ہزار گیارہ میں دونوں ممالک نے انڈیا-افغانستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ ایگریمنٹ پر دستخط کیا ہے جس کے تحت بھارت افغانستان فورس کو محدود سطح پرٹریننگ اور ہلکا فوجی سامان مہیا کرے گا-
افغانستان کی اصل دولت، چین اور بھارت کی بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ اسکی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ میں پوشیدہ ہے- یہ دونوں ہی اس ملک کو یوں تنہا، اپنے حال پر نہیں چھوڑ سکتے اور یہ افغانی سیاست میں ایک نیا عنصر ثابت ہوگا-
4. طالبان کے موقف اب غلط ہیں:
انیس سو نوے کی دہائی میں طالبان ہر اس چیز کا جواب تھے جو افغان کو چاہیے تھا- وہ سخت گوورنر تھے اور ان تک رسائی آسان تھی- وہ اعلی اخلاق کے لئے مصروف عمل اور حیثیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے انکار تھے- وہ حد سے زیادہ مستعد اور سپر مؤثر تھے-
لیکن آج وہ کس بات کی علامت ہیں؟
ہر کوئی یہ راز جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی کٹھ پتلی نہ سہی تو اس کے پراکسیز ضرور ہیں- یہ مانا جاتا ہے کہ انکی قیادت گزشتہ بارہ سال سے پاکستان میں روپوش تھی- پاکستانی حمایت بغیر نہ یہ پنپ سکتے ہیں اور نا ہی فعال ہوسکتے ہیں- امریکا یا دوسرے غیر ممالک کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ یہ بنیادی حقائق ایک عام افغانی کو کیا تاثر دیتے ہونگے؟ کیا وہ طالبان کو ایک دوسرے ملک کا ایجنٹ نہیں سمجھیں گے؟ طالبان کے لئے پاکستان کی کھلم کھلا حمایت، افغانستان کے مقامی سیاق و سباق میں ان کے خلاف استعمال ہونے کے امکانات زیادہ ہیں-
طالبان امن بحال اور ایک مؤثر انتظامیہ قائم کرنے میں کامیاب رہے- لیکن انہوں نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا اور اس کے سماجی تانے بانے کی دھجیاں ادھیڑ دیں- انکا عورتوں کی پبلک لائف ختم کردینے اور شعبوں میں جنسی تقسیم اور جرائم پر بھیانک ترین سزا دینے کا جنون ہی انکے زوال کی وجہ بنا- دنیا آج بھی بامیان میں بدھا کے مجسمے تباہ کرنے کے فیصلے ہٹ دھرمی کی مثال کے طور پر یاد کرتی ہے- وہ مسلم فرقوں اور غیر مسلموں کو ملحد سمجھتے اور انکے ساتھ بہت بھیانک سلوک کرتے-
طالبان اپنی پالیسیوں پر سختگیری پر قائم تھے، انہوں نے کبھی یہ سوچا کہ ان کے فیصلوں سے اقتصادی، سماجی اور سیاسی صورتحال پر کیا نتائج مرتب ہونگے- انکی بے سروپا خود پارسائی اور خون بہانے کا شوق پرانے وقتوں کے بادشاہوں سے ملتا تھا- انکی حکومت کے دوران افغانستان بری طرح متاثر ہوا- کوئی بھی افغان زمانے کا گواہ ہے انکی واپسی چاہتا، اور جنہیں انکی واپسی کا خدشہ ہے وہ ممکن ہے ہر صورت اسکی مزاہمت کریں-
آج کے افغانستان میں جو علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں، مکمل طور پر پوست کی کاشت کرنے والے علاقوں پر مشتمل ہے- ملک کو پوست کی عالمی پیداوار میں، ہیروئن کے لئے نناوے فیصد خام مال مہیا کر کے اجاراداری حاصل ہے- اسکا آدھ حصّہ اکیلے صوبہ ہیلموند سے آتا ہے جو طالبان کا گڑھ ہے- وہ علاقے میں ناصرف پوست کی کاشت کی اعانت اور حفاظت کرتے ہیں بلکہ کسانوں کو مالیاتی مدد اور پیداوار خریدنے کی ضمانت کے ذریعہ اس کی کاشت کو فروغ بھی دیتے ہیں- طالبان اور ڈرگ مافیا کے درمیان تعلق اتنا قریبی ہے کہ بعض اوقات یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون کس کو سپورٹ کر رہا ہے- ان دونوں کا علاقے میں لاقانونیت قائم رکھنے میں حصّہ ہے-
آج طالبان کو ایک جابر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے- یہ کوئی سیاسی مقتدر نہیں ہیں اور منشیات فروشوں کے فعال شراکت دار ہیں- کیا یہ سب انہیں سال دو ہزار چودہ کے معروف ترین طاقت بناتے ہیں؟
5. طالبان کے مرکزی حمایتی اب فارغ نہیں:
طالبان کو افغانستان کی سرکاری حکومت کے طور پر تین ممالک نے تسلیم کیا تھا، پاکستان، سعودی عرب اور عرب امارات- پاکستان انکا براہراست سے سے بڑا حمایتی تھا-
طالبان نے پاکستان کو اپنے دونوں طویل مشرقی اور مغربی سرحدوں کی طرف موجود خیالی دشمنوں کے خوف سے آزادی دلائی تھی- اسے اسٹریٹجک ڈیپتھ سنڈروم کہتے ہیں- پاکستان کو یہ مرض اپنے جنم سے لاحق ہے-
اسے انڈیا سے ملحق اپنا مشرقی بارڈر، اپنی جیوگرافیائی گہرائی کے مقابلے غیر متناسب طور پر بڑا لگتا ہے- پاکستان اپنے اسٹریٹجک تنصیبات جیسے نیوکلیئر پلانٹ اس قائم کر رہا ہے کہ ان کا فاصلہ مشرقی اور مغربی کناروں سے برابر ہے- دوسرے اقدامات جن پر پاکستان غور کرتا ہے افغانستان میں ایک دوستانہ حکومت ہے، تاکہ وہ کسی خوف کے بغیر اپنے مشرقی بارڈر کی حفاظت کر سکے، یا کم ز کم دونوں بارڈرز کی حفاظت کے لئے پریشان نہ ہو-
لیکن افسوس کہ کابل کی حکومت تقریباً ہمیشہ بھارت کے دوستانہ رہی ہے- اس کے تمام صدور کا سوویت قبضے کے دوران اور اس سے پہلے بھی بھارت کے تعلقات رہے ہیں- سنہ انیس بانوے میں مجاہدین کے معزول ہوجانے والے آخر افغانی صدر نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ میں پناہ لی تھی- وہ کئی سالوں وہیں رہے اور بھارت تک محفوظ راستے کے لئے مذاکرات کرتے رہے-
حتیٰ کہ جنگ میں مشغول کتنے ہی غیر پشتوں دھڑ، دہلی کے حمایتی تھے- اگرچہ مجاہدین کی نظر پاکستان پر تھی مگر جب افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی آئی تو وہ نااہل ثابت ہوۓ- طالبان نے ایک مستحکم اور پاکستان نواز حکومت کا وعدہ ظاہرکیا چناچہ وہ پاکستانی سیکورٹی کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھ کا تارہ بن گۓ- انکا مغربی بارڈر پر اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل کرنے کا خواب پورا ہوگیا-
انیس سو نوے میں عملی طور پر افغانستان، پاکستان کی ذمہ داری بن گیا تھا- باقی تمام طاقتوں کو دیگر اہم اور ارجنٹ معاملات نمٹانے تھے- پاکستان نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوۓ جلال آباد کی لڑائی میں حصّہ لیا- اس نے افغان مجاہدین کو اکھٹا کر کے سعودی عرب بھجوانے اور ایک معاہدے پر دستخط کروانے اپنا فرض سمجھا- اس نے اپنے مدرسہ گریجویٹ، طالبان کو افغانستان میں ایک ملیٹنٹ فورس بنایا- لیکن اب پاکستان یہ سب نہیں کر سکتا- اس کے برعکس سچ تو یہ ہے کہ اس کا ایک ایک قدم اسٹیک ہولڈر دیکھ رہے ہیں اور اسکا تجزیہ بھی کر رہے ہیں-
چناچہ اسٹریٹجک شیخ چلی کے خواب ایک طرف رکھیں کیونکہ افغانستان اب کوئی حلوہ نہیں رہا-
ترجمہ : ناہید اسرار
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔