انٹیلی جنس کا چیلنج
بہت ساری اور باتوں کے علاوہ، تیسری بار منصب سنبھالتے ہوئے وزیرِ اعظم نوازشریف نے، سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم، وعدہ یہ کیا تھا کہ وہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو سیاست سے پاک کرنے اور مزید موثر بنانے کے لیے ادارے کی تنظیمِ نو کریں گے۔ آئی بی ممتازسویلین انٹیلی جنس ایجنسی ہے اور اس خیال کے لیے یہی درست مقام بھی۔
جیسا کہ گذشتہ روز 'ڈان' میں آئی بی کے اندرونی ذرائع کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تھی کہ وفاقی حکومت نے رقم، آلات اورافرادی قوت فراہم کرنے کی صورت میں جزوی طور پر اپنا وعدہ وفا کردیا۔ پرویز مشرف کے لگ بھگ ایک دہائی طویل فوجی دورِ حکومت میں ادارے کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا، جس کے باعث اس کی حالت خاصی خستہ ہوچکی۔
سب سے فوری تبدیلی کراچی میں دیکھی جاسکتی ہے، جہاں جاری آپریشن میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ آئی بی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ علاوہ ازیں، زیادہ تر، جیسا کہ آئی بی، خود کو پسِ پشت رکھ کر کام کرتی ہیں تاہم مجموعی طور پر انٹیلی جنس کمیونٹی کے حوالے سے یہاں ایسے بے شمار چیلنجز بدستور موجود ہیں، جن کا حل کیا جانا ضروری ہے۔
عمومی اور خصوصی، دونوں طرح کے مسائل پر مبنی فہرست خاصی طویل ہے۔ اختیارات کا دائرہ کار، معلومات کے حصول، کارروائیاں، سرگرمیاں یا قانونی اصل پر، آئی ایس آئی کے معاملے میں بہت کچھ واضح نہیں۔ یقیناً، اپنے حجم اور اثر و رسوخ کی بنا پر آئی ایس آئی بڑا ادارہ ہے لیکن اس میں قانون سازی اور پارلیمانی نگرانی، کی دو بنیادی ضروریات بدستورغائب ہیں۔ کم ازکم سیاست مداخلت کے علاوہ یہاں اور بھی بڑے مسائل موجود ہیں۔
سیاستدانوں اور صحافیوں کی جاسوسی کے حوالے سے ابھی حال ہی میں آئی بی جزوی متنازعہ بنی ہے۔ مبہم لفظوں پر مشتمل الزامات اور یکساں طور پر غیر واضح تردید سے آگے، اس پر کم وضاحت موجود ہے جو اپنے پیچھے بہت کچھ حیرانی چھوڑتی ہے کہ آیا اب بھی آئی بی پیشہ ورانہ اہلیت کے بجائے کسی حد تک سیاسی اثر میں ہے۔
اس کے بعد، وہاں کمرے میں ہاتھی بھی موجود ہے: یہ ہے سول ۔ ملٹری عدم توازن۔ وزارتِ داخلہ کی طے کردہ قومی داخلی سلامتی پالیسی کا ایک حصہ سویلین اور فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری پر مشتمل ہے۔ اس کے لیے، دستاویزی حد تک ہی سہی، کم از کم انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کا قیام بظاہر عمل میں لایا جاچکا، جو کہ ایک مناسب قدم ہے۔
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا حکومت میں یہ صلاحیت موجود ہے یا یہ کہ وہ طاقتور انٹیلی جنس اداروں کی عادتوں اور ان کی پشت پر موجود ادارتی سوچ کو تبدیل کرنے پر آمادہ ہے۔
یہ انٹیلی جنس اداروں کی فطرت میں شامل ہے کہ خواہ وہ ایک ہی ریاستی ڈھانچے کے اندر کام کررہے ہوں لیکن پھر بھی دوسری تنظیم کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
وہ ایک دوسرے کو ایسے اطراف میں دھکیلتے ہیں کہ جہاں ان کا کوئی کام نہیں یا ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں۔ تمام وقت وہ ایسے حقیقی یا تصوراتی خطرات کی کالی چھایا بُلند کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو ان کی موجودگی اور اس کی توسیع کو جواز بخش سکے۔
اس پر یقین کرنا چاہیے کہ داخلی اور خارجی سطح پر پاکستان کو مضبوط انٹیلی جنس سیٹ اپ کی ضرورت ہے لیکن ضرورت کیا ہے اور حقیقت میں کیا چیز تیار ہوتی ہے، اسے بطور ایک شے فرض کرلینا شاید زیادہ مشکل ہوسکتا ہے۔
انٹیلی جنس کمیونٹی پر سنجیدہ توجہ دینے اور ان کی زہر آلودگی دور کرنے کی ضرورت ہے۔