بھٹو کی پھانسی: انصاف یا عدالتی قتل؟
سر شاہنواز بھٹو کے فرزند اور بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ملک پاکستان کے ہر دلعزیز اور متنازعہ ترین سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی بنائی پیپلز پارٹی کا پاکستانی سیاست میں اس قدر زور رہا ہے کہ 1968 سے 2000 تک کے دور کو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے غیر پنجابی لیڈر تھے جنھوں نے پنجابیوں کو ازحد متاثر ہی نہ کیا بلکہ دسمبر 1970 کے انتخابات میں پنجاب سے حاصل کردہ واضح برتری ہی کی بدولت وہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔
آج ہی کے دن 4 اپریل 1979 کو، 35 برس قبل انھیں فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کی ایما پر بظاہر عدالتی کارروائی کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ان کے عدالتی قتل کو اسی عدالت کے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ غلط قرار دے چکے ہیں۔ مکافات عمل کو ماننے والے تو ضیاالحق کی موت کو اسی غلط فیصلہ کا منطقی انجام قرار دیتے ہیں۔
جنرل ضیاالحق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 5 جولائی 1977 کو فوجی طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت نظام مصطفی کے نام پر اپوزیشن والے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلا رہے تھے۔
اس تحریک میں سیکولر و قوم پرست عناصر اور مذہبی سیاسی جماعتیں خصوصاً مولانا مودودی کی جماعت اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان اور مولانا مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام بھی شامل تھیں اور نیشنلائزیشن کے ڈسے ہوئے بھی مالی و عملی مدد بہم پہنچا رہے تھے۔
تاہم ضیاالحق کے مارشل لاء سے قبل حذب اختلاف اور حکومت میں مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے جس کی گواہی بعد میں اپوزیشن کے دو اہم رہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد نے دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی اور ایئرفورس کے افسر ایک مشہور نجی ٹی وی پر یہ بات ریکارڈ کروا چکے ہیں کہ بھٹو آخری مہینوں میں گرفتار سیکولر و قوم پرست عناصر کو بھی رہا کرنا چاہتے تھے مگر ایک میٹنگ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ مذاکرات کی کامیابی نظر آتے ہی ضیاالحق نے 5 جولائی کو مارشل لاء لگا دیا اور از خود سیکولر و قوم پرست عناصر کو بھی رہا کر دیا۔
1977 سے 1980 کے درمیان ہمارے خطے میں جس بین الاقوامی کھیل کا آغاز ہو رہا تھا اسے دیکھتے ہوے آج یہ سمجھنا آسان ہے کہ بھٹو کس کس کی آنکھ کو کھٹکتا تھا۔ اس کھیل کے لیے اک کمزور حکومت درکار تھی جو "یس مین" کا کردار بخوبی نبھاۓ۔
بھٹو حکومت کو غیرآئینی طریقہ سے برطرف کر کے ضیاالحق نے 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا اور وزارتوں کے قلمدان بھٹو مخالفین میں تقسیم کر دیے۔ حیران نہ ہوں، جاوید ہاشمی بھی ضیاالحقی وزراء میں شامل تھے۔ یہ حضرت اس وقت جماعت اسلامی کے نوجوان رہنما تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب سیکولر و قوم پرست سیاستدانوں کی پارٹی "نیشنل عوامی پارٹی" ایک بار پھر ٹوٹ چکی تھی اور خصوصاً بلوچ رہنما سابقہ صوبہ سرحد کی پختون قیادت خصوصاً خان عبدالولی خان سے مکمل علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔
بلوچستان کے پختون تو 1970 ہی میں خان عبدالصمد اچکزئی کی قیادت میں ولی خان سے نالاں ہو کر الگ سیاسی راہ اپنا چکے تھے، اب حیدرآباد ٹربیونل کیس کے دوران بلوچ بھی ان سے نالاں تھے۔
ذرا غور کریں، قومی اتحاد کی تمام تحریکوں کا بنیادی مطالبہ شفاف انتخابات کا دوبارہ انعقاد تھا۔ فوجی حکمران 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کرنے پر مجبور تھا۔ مگر عین اس موقعہ پر خان عبدالولی خان نے اک ایسا نعرہ بلند کر دیا جسے سیاسی غلطی کی بجائے "سازش" اور سیاسی بصیرت کی بجائے "تعصب" کہنا درست ہوگا۔
"پہلے احتساب پھر انتخاب" کا نعرہ لگانے والے خاں صاحب نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ احتساب کی فریاد کس سے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عدلیہ تھی جسے فوجی صدر نے من مرضی استعمال کیا۔ 1947 میں سہارن پور سے ہجرت کر کے آئے مولوی مشتاق ایک مثال تھے جنھیں بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ اس نے مولوی صاحب کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔
پھر ضیاالحق نے مولوی صاحب کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کے تحت پر بٹھا کر من چاہے فیصلے کروائے۔ اسی طرح جسٹس انوارالحق تھے جنھیں جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1962 کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا مستقل جج اور جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا تھا۔ ان حضرت کو جنرل ضیاالحق نے ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا تھا۔ حیران نہ ہوں، انوارالحق، ضیاالحق اور جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل تینوں کا تعلق جالندھر سے تھا مگر ایک تعلق اس بھی زیادہ مضبوط تھا اور وہ تھا تعصب اور بھٹو دشمنی کا تعلق۔
1952 سے 1957 تک وزارت دفاع میں بطور ڈپٹی سیکرٹری و جوائنٹ سیکرٹری کام کرنے والے انوارالحق نے 1957 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کراچی تعینات ہو کر عدلیہ کا جامہ اوڑھا تھا۔ محض 13 سال میں دو فوجی صدور کے کرم سے وہ ملک کے اہم ترین عدالتی مرکز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنا دیے گئے، یہاں سے وہ جسٹس منیر کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننا چاہتے تھے۔ مگر 1972 میں انھیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا محض جج بنا دیا گیا۔ یوں انھیں دو غم ملے کہ وہ نہ تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور نہ انھیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔
ضیا نے حضرت کو چیف جسٹس بنایا اور جواب میں انھوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کا تحفہ پیش کیا۔ ذرا غور کریں، آج نہ کوئی مولوی مشتاق کو جانتا ہے نہ انوارالحق کو اور نہ ہی میاں طفیل کا کوئی مقام ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے مخالفین اور حمایتی برابر یاد رکھے ہوے ہیں۔ اس عدالتی قتل نے بھٹو اور پاکستان کو لازم و ملزوم کر دیا۔
آج سیاسی پختگی بھی نظر آتی ہے اور عدلیہ کا کردار بھی "پچھلگ" (Subservient) نہیں رہا۔ کم ازکم 2010 سے منتخب صوبائی حکومتیں بھی چل رہی ہیں اور جمہوری تسلسل بھی رواں دواں ہے۔ اس بدلے ہوے پس منظر میں ایک "وسیلہ" بھٹو کے عدالتی قتل کا بھی ہے کہ جسے یاد رکھنے کے لیے یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔ اس جمہوری بندوبست کے لیے لاتعداد لوگ "تاریک راہوں" کے اسیر بنے کہ اس داستان کا قرض مستقبل کے مورخ پر ہے۔
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔