نقطہ نظر

'لاپتا' کا قصہ

فوج جبری گمشدگیوں میں ملوث، چھوٹے اہلکاروں کی قربانی نہیں، بڑوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

اگرچہ خیبر پختون خواہ، فاٹا اور بلوچستان سے لاپتا لوگوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی جستجو میں در بہ در بھٹک رہے ہیں تاہم موخرالذکر صوبے کی سرزمین تواتر کے ساتھ بعض لاپتا افراد سے متعلق نہایت بھیانک شواہدات اُگلتی جارہی ہے۔ ضلع خضدار کے علاقے توتک سے اتوار تک، چار مسخ شدہ مدفون لاشیں مل چکی ہیں، یہیں پر اجتماعی قبروں سے گذشتہ جنوری میں تیرہ مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے متعین کردہ ایک کمیشن معاملے کی تحقیقات کررہا ہے۔

لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرداں خاندانوں کو اس وقت ایک جھٹکا لگا جب پیر کو، راولپنڈی سے لاپتا مسعود جنجوعہ کیس کے ایک گواہ کو، یو این ایچ سی آر کے سری لنکا کیمپ سے وڈیو لِنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی اجازت دینے سے عدالت نے انکار کردیا۔

جبری طور پر لاپتا افراد کا معاملہ اعلیٰ عدلیہ نے سن دو ہزار چھ سے اٹھا رکھا ہے۔ اس کی متواتر اور سخت کوششوں کے باعث ہی خیبر پختون خواہ اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے چند لاپتا افراد کو عدالت کے روبرو پیش کرنا ممکن ہوا، جس سے متاثرہ خاندانوں کو کچھ راحت مل سکی تھی۔

بنچ کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے فوج کے سینئر افسران کی طلبی سے عدالت نے یہ اصول طے کردیا کہ فرد یا ادارہ، کم از کم قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔

جیسا کہ افسران سینئر ہیں اور اوپر سے حکم کے بغیر ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں، ایسے میں مسئلے کے بامعنیٰ حل کے امکانات نہیں، لیکن بلوچوں کی جبری گمشدگی میں ان کے مبینہ کردار کے باعث، حکومت کی طرف سے حال ہی میں دو فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے حکم کا شمار بھی سپریم کورٹ کے عملی طریقہ کار میں کیا جاسکتا ہے۔

جبری لاپتا افراد کا مسئلہ، خاص طور پر بلوچستان حکومت کے لیے عملداری قائم کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنے روایتی 'قومی مفاد' کی تعریف کو آگے بڑھانے میں ہر سزا سے ماورا ہونے کی عادی ہے، ایسے میں یہ کسی کو اپنے راز آسانی سے دینے والی نہیں۔ اس نے لاپتا افراد کو پیش کرنے کے عدالتی حکم کی بھی جزوی تعمیل کی تھی اور وہ بھی بڑے جتن، ڈھیروں حیلے بہانوں اور خالی خولی یقین دہانیوں کے بعد۔

اس کے باوجود، جب تک جبری طور پر لاپتا کردہ ایک ایک فرد کا حساب نہیں ملتا، عدالت کو ہرحال میں اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان کا نظریاتی تعلق خواہ کچھ بھی ہو لیکن بطور پاکستانی شہری، یہ دوسروں سے کسی طور بھی کم حقوق کے مستحق ہرگز نہیں۔

حتیٰ کہ مسعود جنجوعہ کیس میں، جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ 'غیرریاستی عناصر' کے ہاتھوں قتل ہوچکے، عدالت کو مزید تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ گمشدگیوں کے واقعات کے پسِ پردہ موجود سچائی ثابت کی جاسکے۔ ریاست کے دیگر عناصر کو چاہیے کہ وہ بھی اس کڑے وقت میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

جبری گمشدگیوں کے جرم میں اس کے شامل ہونے کے غالب ثبوت موجود ہیں، ایسے میں یہی وقت ہے کہ فوج کے طریقہ کار کے بارے میں واضح طور پر تشخیص کی جائے اور بجائے اس کے کہ چھوٹے اہلکاروں کو قربانی کے لیے پیش کردیا جائے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سینئر افسران کو احتساب کے سامنے کھڑا کیا جانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی، پارلیمنٹ کو بھی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو اجازت دے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ، اس کے بنیادی دعوے یعنی جمہوری اصولوں کو قربان کیے بغیر، موثر طریقے سے لڑی جائے۔

انگلش میں پڑھیں

ڈان اخبار