مشرف کی فردِ جُرم
گذرا کل ایک تاریخی دن تھا کہ جب ایک سابق فوجی سربراہ اور آمر ایک جج کے سامنے کھڑا، آئین کی پامالی کے الزامات کا سامنا کررہا تھا۔ کیا جنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت مقدمہ، مستقبل کی فوجی بغاوتوں کا راستا مشکل بنا دے گا، یہ اہم سوال ہے لیکن صرف ایک نہیں۔
یقیناً، اگر آئین مقدس ہے اور عوام کی منشا پر جمہوری ریاست کی حفاظت بنیادی قدر کے طور پر کرتا ہے تو پھر آئین کی خلاف ورزی کرکے اختیارات پر قابض ہونے کے ذمہ دار کو وہی سزا دی جانی چاہیے جو خود آئین اپنے اندر طے کرچکا ہے۔
اگرچہ ایک عدالتی فیصلے سے بغاوت کا رستا رکنا ممکن نہیں لیکن اس مقدمہ بغاوت کے ذریعے، یہاں سیاست ایک ایسا ارتقائی عمل تخلیق کرسکتی ہے، جس کے اندر یہ سماعت نئے پاکستان کی عمارت کی ایسی منڈیر بن سکتی ہے، جہاں فوجی بغاوتوں کے لیے متنوع وجوہات کا امکان ہی باقی نہ رہے۔
اب آتے ہیں پیچیدگیوں کی جانب۔ جیسا کہ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ جناب مشرف پر سن دو ہزار سات کی ایمرجنسی کے نفاذ اور اُس اعلیٰ عدلیہ کو نکال باہر کیے جانے پر فردِ جُرم عائد کی گئی، جو دوسری بار صدر منتخب ہونے میں راہ کی دیوار تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ، سب یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ اختیارات پر قابض ہونے کے لیے اکتوبر سن اُنیّس سو ننانوے کا قدم اٹھا کر آئین کا دھڑن تختہ نہ کرتے تو پھر تین نومبر، سن دو ہزار سات کو ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
سابق فوجی آمر کے خلاف جو مقمہ چلایا جارہا ہے، وہ ممکن ہی نہ ہوتا اگر ان سے اصل جُرم سرزد نہ ہوا ہوتا۔ اصل جُرم کو مناسب طور پر ظاہر کیے بغیر سماعت، مشکلات سے بھرپور اور ناکافی بھی ہے۔
تاہم پارلیمنٹ، سن اُنیّس سو ننانوے کے اقدامات کی پہلے ہی توثیق کرچکی تھی اس لیے قانونی طور پر یہ معاملہ تو زیادہ پیچیدہ ہوچکا لیکن اس کے بعد، سن دو ہزار سات کے اقدامات کی نہ تو عدلیہ نے توثیق کی تھی اور نہ ہی پارلیمنٹ نے لیکن اس کے لیے ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے: سن اُنیّس سو ننانوے میں جناب مشرف نے غیر قانونی طور اسی آئین سے اقتدار حاصل کیا تھا، جس کی خلاف ورزی کے وہ سن دو ہزار سات میں مرتکب ہوئے۔
علاوہ ازیں، یہاں یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ آیا جناب مشرف تنہا تاریخ کے فیصلے کا سامنا کریں گے یا پھر وہ تمام افراد جنہوں نے ان کے اقتدار کی ضروری تیاریوں اور توثیق کے لیے ناگزیر کردار ادا کیے، کیا انہیں بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہر حال، اب ایک عمل جاری ہے اور فوری سوال یہ ہے کہ اس سے نتیجہ کیا نکلے گا۔
اگر فردِ جُرم عائد کیے جانے میں ہی اتنی دیر ہوئی تو پھر جناب مشرف کے ملک میں ہونے کے ساتھ، مقدمے کی سماعت اب بھی غیر یقینی ہے۔
اپنی مرضی و منشا کے مطابق قدم اٹھائے جانے کے بعد، اس سوال نے مرکزی اہمیت حاصل کرلی ہے: حالانکہ اس کا تو امکان بہت ہی کم ہے کہ ایک بار یہاں سے نکلنے کے بعد وہ واپس لوٹیں یا انہیں لوٹنے کی اجازت مل سکے لیکن کیا جناب مشرف کو بیرونِ ملک سفر کی اجازت مل جائے گی؟
اس وقت یہ بال بظاہر وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے لیکن امکان ہے کہ اس پر فیصلے سے پہلے وہ چاہیں گے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے راہ متعین کردی جائے۔ قبل از سماعت کا یہ سرکس ابھی کچھ دیر مزید جاری رہ سکتا ہے۔