دنیا

کرزئی کا پاکستان پر پھر الزام

کرزئی نے افغانستان میں سلسلہ وار تازہ حملوں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات روکنے کا الزام پاکستان پرعائد کیا ہے۔

کابل: افغان صدر کے دفتر نے اتوار کو کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ فون پر حامد کرزئی نے افغانستان میں سلسلہ وار تازہ حملوں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات روکنے کا الزام پاکستان پرعائد کیا ہے۔

کرزئی اسلام آباد پر اس طرح کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے براہ راست خصوصی طور پر اسلام آباد پر سخت تنقید کی ہے۔

یہ بیان دارالحکومت کابل میں پانچ دنوں کے دوران سلسلے وار تین حملوں کے بعد سامنے آیا ہے، ہفتے کو برقع پوش طالبان شدت پسندوں نے کابل میں واقع افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے ہیڈا کوارٹر پر حملہ کیا تھا۔

کرزئی نے ہفتہ کو کیری کو بتایا کہ ہفتے کو کیا کیا جانے والا حملہ پیچیدہ نوعیت کے حملوں میں سے ایک تھا ۔ اس حملے کو ' غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسی' نے کرایا ہے۔ اور کرزئی یہ الفاظ پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کیری سے فون پر کہا کہ وہ اس امریکی تاثر کو بھی رد کرتے ہیں کہ ' اس کا دہشتگردی کی حمایت کرنے والے ممالک ' پر کوئی اثرورسوخ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے انکار سے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکہ افغان تعلقات کو مزید نقصان پہنچاسکتی ہیں۔

طالبان نے کابل میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بہت کم تجزیہ کاروں نے کرزئی کے اس الزام کی تائید کی ہے کہ ان حملوں میں طالبان نہیں بلکہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ملوث ہے۔

پاکستان نے طالبان کی مدد کے الزام کو مسترد کیا ہے۔

موجودہ صدر اس سے قبل 2004 اور 2009 میں صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن ملکی قانون کے تحت وہ تیسری مرتبہ اس منصب کے لیے الیشکن نہیں لڑ سکتے۔

کرزئی نے امریکا کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ مسترد کر دیا تھا جس کے تحت نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بھی القاعدہ کی باقایات کا صفایا کرنے اور افغان فوج کو تربیت کے لیئے بارہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رہ سکیں گے

افغان ایوان صدرکے مطابق ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران کرزئی نے کیری کو بتایا کہ طالبان کی اعلی امن کونسل،سے بات چیت کی خواہش تھی جس کی اسی رکنی باڈی نے صدر کو مسلح مخالفین کے ساتھ مصالحت کا اختیار سونپا تھا لیکن پاکستان نے انہیں روک دیا۔

ایوان صدر نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔

طالبان نے کرزئی کے ساتھ کسی بھی بات چیت کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ افغان صدر سے بات کرنا نہیں چاہتے۔

تاہم کئی طالبان رہنماؤں نے متحدہ عرب امارات میں کرزئی کی اعلٰی امن کونسل سے ملاقات کی تھی۔