جب پاکستان ورلڈ چیمپیئن بنا
87 ہزار سے زائد تماشائیوں سے بھرے میلبورن کرکٹ اسٹیڈیم میں ہرسوسبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا اور پاکستان زندہ باد کے نعروں نے پورے گراؤنڈ میں ایک سماع سا باندھ رکھا تھا۔ ایک طرف فتح کے متمنی پاکستانی شائقین کا جوش آسمان کی حدوں کو چھو رہا تھا تو دوسری جانب ایک اور ورلڈ کپ فائنل میں شکست کے خوف سے پریشان برطانوی شائقین پر لرزہ طاری تھا اور وہ کسی معجزے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
انگلینڈ کو جیت کے لیے مزید 23 رنز درکار تھے اور اس کی صرف ایک وکٹ باقی تھی، ایسے میں پاکستانی ٹیم کے قائد عمران خان نے میچ کی 599ویں گیند کرانے کے لیے بھاگنا شروع کیا، دوسری جانب گیارہویں انگلش بلے باز رچرڈ النگ ورتھ موجود تھے جنہوں نے خان کی گیند کو اونچا کھیلنے کی کوشش کی اور گیند کے فضا میں بلند ہوتے ہی گراؤنڈ اور ٹی وی پر میچ دیکھنے والے دونوں ملکوں کے لاکھوں شائقین کرکٹ کی نگاہیں رمیز راجہ پر جم گئیں جنہوں نے مڈ آف پر تاریخی کیچ پکڑنے کے ساتھ گرین شرٹس کو 22 رنز کی فتح اور دنیائے کرکٹ کے شہنشاہ کے اعزاز سے نواز دیا۔
جی ہاں یہ میچ کوئی اور نہیں، 1992 میں آسٹریلین سرزمین پر کھیلا گیا فائنل تھا جہاں یقیناً کسی معجزے کی طرح پاکستانی ٹیم نے ورلڈ چیمپیئن ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔
ایونٹ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان کو فیورٹ کی دوڑ سے باہر کردیا گیا تھا اور ابتدائی مقابلوں کے بات یہ بات کچھ ثابت ہوتی بھی نظر آتی تھی لیکن پھر جو کچھ ہوا اس پر دنیائے کرکٹ آج تک حیران ہے۔
یہ ایونٹ اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کہ پہلی مرتبہ کسی ورلڈ کپ میں سفید گیند، رنگ برنگی کٹ ، فلڈ لائٹس اور تھرڈ امپائر کا استعمال کیا گیا جس نے ٹورنامنٹ میں چار چاند لگا دیے اور یہی وجہ ہے 25 برس گزرنے کے باوجود یہ آئی سی سی کے کامیاب ترین ٹورنامنٹس میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
ورلڈ کپ سے قبل گرین شرٹس کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب سعید انور اور ابھرتے ہوئے اسپیڈ اسٹار وقار یونس انجری کے باعث ایونٹ سے باہر ہو گئے خصوصاً ایونٹ کے آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر انعقاد کے سبب وقار کا اسکواڈ سے باہر ہونا کسی بڑے دھچکے سے کم نہ تھا جبکہ ایونٹ کے لیے عمران خان کی فٹنس پر بھی سوالیہ نشان برقرار تھا۔
بہرحال نوجوان کھلاڑیوں کی اکثریت سے بھرپور ٹیم ٹورنامنٹ کے لیے فیورٹ قرار دیے جانے والی ویسٹ انڈین ٹیم کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلنے آسٹریلیا کے میلبورن اسٹیڈیم پہنچی۔
میچ میں پاکستانی روایت کے برخلاف بلے بازوں نے صرف دو وکٹ کے نقصان پر 220 رنز اسکور کیے جس میں رمیز راجہ کی ناقابل شکست سنچری اور جاوید میانداد کی ففٹی قابل ذکر تھی لیکن تمام ہی حلقوں کی جانب سے آٹھ وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود عمران الیون کے کچھوے کی رفتار سے کیے گئے رنز پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا حالانکہ وکٹ بیٹنگ کیلئے انتہائی سازگار تھی۔
جواباً ڈیسمنڈ ہینز اور برائن لارا پر مشتمل اوپننگ جوڑی نے اپنی ٹیم کو 175 رنز کا شاندار آغاز فراہم کیا اور لارا کے زخمی ہونے کے باعث پویلین لوٹنے کے باوجود ویسٹ انڈین ٹیم نے باآسانی دس وکٹوں سے کامیابی اپنے نام کر لی۔
اگلے میچ میں قومی ٹیم نے عامر سہیل کی سنچری اور میانداد کے 89 رنز کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم کی شاندار باؤلنگ کی بدولت آسان حریف زمبابوے کے خلاف 53 سے کامیابی اپنے نام کی لیکن اگلے میچ جو کچھ ہوا اس کی شاید کسی کو امید نہ تھی۔
گزشتہ دو میچوں میں بہتر بیٹنگ فارم کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم کپتان عمران کی غیر موجودگی کا دکھ نہ جھیل سکی اور انگلش باؤلنگ کے سامنے صرف 74 رنز پر پویلین لوٹ گئی اور پھر میانداد کی زیر قیادت ایک اور میچ میں عبرتناک شکست پاکستان کی منتظر دکھائی دینے لگی۔
لیکن قسمت کی دیوی کو کچھ اور ہی منظور تھا، بارش کی مداخلت کے باعث انگلینڈ کو ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت جیت کے لیے 16 اوورز میں 64 رنز کا ہدف ملا، انگلش ٹیم نے آٹھ اوورز میں 24 رنز بنائے ہی تھے کہ آسمان سے مینہ آ برسا اور پھر ایسا برسا کہ میچ شروع نہ ہو سکا جس نے پاکستان کو ناقابل یقین قیمتی ایک پوائنٹ دلا دیا۔ کسے پتہ تھا کہ یہی ایک پوائنٹ اس ٹیم کو ورلڈ کپ کا فاتح بنا دے گا۔
سڈنی میں کھیلے جانے والے اگلے میچ کے لیے شائقین ایک عرصے سے منتظر تھے اور کیوں نہ ہوں کہ جب پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا جب ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں اور پاکستان کو 43 رنز سے شکست ہوئی، میچ میں سچن ٹنڈولکر نے 54 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر اپنے شاندار مستقبل کی نوید سنائی۔
اس میچ میں پاکستانی اعتبار سے واحد یادگار چیز ہندوستانی وکٹ کیپر کرن مورے کے جملوں پر جاوید میانداد کا اچھوتے انداز میں اچھل کود کرنا تھا۔
اگلے میچ میں پاکستان کا مقابلہ کرکٹ کی دنیا میں واپسی کرنے والی پرعزم جنوبی افریقی ٹیم سے تھا، اس میچ میں شکست کے باوجود جونٹی رہوڈز کا انضمام الحق کو شاندار حیرت انگیز انداز میں رن آؤٹ کرنا آج بھی کرکٹ کے متوالوں کو یاد ہے۔
پانچ میچوں میں محض ایک کامیابی کے بعد گرین شرٹس کا ایونٹ سے باہر ہونا طے تھا خصوصاً ایسی صورتحال میں جب اس کا دونوں میزبانوں سے میچ کھیلنا باقی تھا لیکن اس موقع پر یہ عمران کی شاندار قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ناکامیوں کے گرداب میں پھنسی ٹیم کی کشتی کو بھنور سے نکالا اور ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی جبکہ یقیناً اس میں قسمت کی یاوری بھی شامل حال رہی۔
اگلے ہی میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کسی زخمی شیر کی مانند ایونٹ میں واپسی کی عامر سہیل کی بلے بازی اور گیند بازوں کی شاندار کارکردگی کی بدولت میچ میں 48 رنز سے کامیابی حاصل کی۔
پھر سری لنکا کے خلاف اگلے میچ میں جاوید میانداد اور سلیم ملک کی نصف سنچریوں کی بدولت قومی ٹیم نے چار وکٹ کی فتح اپنے نام کر کے ٹورنامنٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھی لیکن اصل امتحان ابھی باقی تھا۔
پاکستان کا آخری لیگ میچ میں ٹورنامنٹ کی سب سے کامیاب ٹیم اور میزبان نیوزی لینڈ سے سامنا تھا، ایک ایسی ٹیم جس کو ابھی تک کسی بھی حریف نے شکست نہ دی تھی لیکن ہمیشہ سے ناقابل اعتبار قرار دی جانے والی ٹیم نے وسیم اکرم کی شاندار باؤلنگ کی بدولت کیویز کو صرف 166 رنز پر ٹھکانے لگادیا، اکرم نے میچ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔
جواب میں ایک موقع پر 9 رنز پر دو وکٹوں سے محروم ہونے والی ٹیم نے رمیز راجہ کی ایونٹ میں دوسری سنچری کی بدولت لگاتار تیسری فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیمی فائنل کی دوڑ میں بھی نام شامل کر لیا لیکن اسے ایک بار پھر قسمت کی مدد درکار تھی۔
صورتحال کچھ یوں تھی کہ ویسٹ انڈیز کا آخری لیگ میچ میں آسٹریلیا سے سامنا تھا اور اس میچ میں فتح کی صورت وہ آخری ٹیم میں جگہ بنا سکتے تھے اور ایسی صورت میں پاکستان باہر ہوجاتا جبکہ دوسری جانب بدترین کارکردگی کی حامل آسٹریلین ٹیم تھی جس کی فتح کی امیدیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور ہار یا جیت اس کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی تھی، دونوں ہی صورتوں میں ان کا ایونٹ سے باہر ہونا پہلے سے طے تھا۔