زنجیروں سے بندھا ہوا لڑکا مدرسے سے فرار
لاہور: ایک مدرسے سے فرار ہونے والے نوعمر لڑکے کو پیر کے روز پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا، جس کے پیروں سے بھاری زنجیر بندھی ہوئی تھی۔
پندرہ برس کے عمیر رمضان نے پولیس کو بتایا کہ اس کو امرسدھو گاؤں کے وحید پارک میں قائم مدرسہ فیض القرآن میں زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا۔
فیکٹری ایریا پولیس اسٹیشن کے اے ایس آئی لیاقت علی کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 342 (ناحق قید کرنے کی سزا) کے تحت درج کی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق وہ اور ان کی ٹیم شوکت ٹاؤن میں غازی روڈ پر گشت کررہی تھی، تب انہیں ریسکیو 15 سے انہیں الرٹ کیا گیا کہ ایک لڑکا جس کے پیروں میں زنجیر بندھی ہوئی ہے، بودھی قبرستان کے نزدیک حجام کی دکان پر موجود ہے۔
ریسکیو 15 پر سجاد احمد نے اس لڑکے کی اطلاع دی تھی، انہوں نے اس لڑکے کو پولیس کے حوالے کیا، جس نے اپنی شناخت عمیر رمضان ولد محمد رمضان سکنہ گاؤں امرسدھو کروائی۔ اس لڑکے نے پولیس کو بتایا کہ وہ مدرسہ فیض القرآن سے فرار ہوا ہے، جہاں اس کو پچھلے چھ دنوں سے زنجیروں میں جکڑ کر قید میں رکھا گیا تھا۔
اے ایس آئی نے اس کیس کے لیے درج کی جانے والی شکایت میں لکھا ہے کہ یہ لڑکا ایک نامعلوم فرد کی غیرقانونی حراست میں تھا۔ پولیس نے زنجیر اور تالے کو بطور ثبوت اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
عمیر کی ایک آنکھ میں غیرمعمولی کمزوری ہے، اس نے ڈان کو بتایا کہ وہ واش روم جانے کا بہانہ کرکے مدرسے سے فرار ہوا۔ جب وہ مدرسے سے باہر آگیا تو اسے راہ چلتے دولوگ ملے، جنہوں نے اس کے پیروں میں پڑی زنجیروں کو دیکھ کر اس کے بارے میں معلوم کیا۔
اس نے پولیس کو بتایا کہ ’’میں نے اس آدمی کو اپنے والد کا فون نمبر دیا تھا۔‘‘ تاہم اس آدمی نے پولیس اور رپورٹروں کو الرٹ کردیا۔
واضح طور پر خوفزدہ دکھائی دینے والے عمیر نے بتایا کہ اس کے والد رمضان نے چند روز پہلے اس کے استاد قاری محمد وسیم تبسم سے کہا تھا کہ اس کو زنجیروں سے باندھ کر رکھیں تاکہ یہ یہاں سے بھاگ نہ سکے۔ ان دونوں نے اس کو چھ روز سے زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا، حالانکہ اس نے بارہا درخواست کی تھی کہ وہ مدرسہ چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ عمیر نے بتایا کہ اس کے استاد نے اس کو کبھی نہیں مارا، اور اس کے والد نے ان سے کہا تھا کہ اس کو قید کرکے رکھا جائے۔
چوتھی جماعت مکمل کرنے کے بعد عمیر کو اسکول سے نکلوالیا گیا تھا اورتقریباً تین سال پہلے اس کو ایک مدرسے میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ جلد ہی اس نے اس کو بھی چھوڑ دیا، اس لیے کہ اس کے ساتھی طالبعلم اس کی آنکھ کے نقص اور جزوی گنج پن کی وجہ سے اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔
عمیر نے بتایا کہ اس کے والد نے اس کو ایک دوسرے مدرسے میں داخل کروادیا، جہاں اس نے ڈیڑھ سال تک تعلیم حاصل کی۔ وہ اس مدرسے سے بھی بھاگ گیا، اس لیے کہ اس کے اساتذہ بشمول قاری نذیر کے اس کو قرآنی اسباق یاد نہ کرنے اور کلاس سے بھاگنے پر تشدد کیا کرتے تھے۔ عمیر نے اپنے والد سے بتایا تو وہ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھنے کے بعد مدرسہ تبدیل کرنے پر راضی ہوگئے۔
اس نے کہا کہ بالآخر اس نے مدرسہ فیض القرآن میں چند مہینے پہلے داخلہ لے لیا، جہاں وہ اپنے ساتھی طالبعلموں کے مذاق کا نشانہ بننے لگا۔
عمیر کو آج بروز منگل کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا، اس کا کہنا ہے کہ ’’میں اسکول جانا چاہتا ہوں، اور اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے بتایا کہ گھر پر اس کے والدین یا بہن بھائیوں کی طرف سے کبھی اس پر تشدد نہیں کیا گیا۔
عمیر کے والد جو ایک ڈرائیور ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی مدرسے کے استاد سے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو قید کررکے رکھیں، اس لیے کہ وہ اکثر مدرسے سے بھاگ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خود انہوں نے ہی یہ زنجیر اور تالا خرید کر قاری وسیم کو دیا تھا۔ رمضان نے کہا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔
قاری وسیم کا تعلق مظفرگڑھ سے ہے اور وہ معذور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس مدرسے میں ایک مہینہ پہلے ہی شمولیت اختیار کی تھی اور کبھی بھی کسی طالبعلم کو مارا نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رمضان کی طرف سے دی گئی تجویز کہ عمیر کو زنجیر سے باندھ کر رکھا جائے، کو ابتداء میں انہوں نے مسترد کردیا تھا، لیکن مدرسے کے ناظم نے انہیں ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمیر ایک اچھا طالبعلم تھا، اور وہ ہمیشہ قرآن کے سبق یاد کرلیا کرتا تھا، لیکن بس اس کو کلاس سے بھاگنے کی عادت تھی۔
پولیس کے ایک تفتیش کار نے بتایا کہ چونکہ اس کیس کے درج کروانے میں عمیر کے گھر والوں کی طرف سے کسی نے دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے، اس لیے لامحالہ پولیس کو ہی اس معاملے میں قانون کے مطابق کارروائی کرنی ہوگی۔