نقطہ نظر

جرگوں کا مزید 'انصاف'

ایم این اے کی سربراہی میں جرگے کا فیصلہ، شکارپور کی دوخواتین 'کاروکاری' الزام پر قتل۔

وحشیانہ رسمیں بڑی سخت جاں ہوتی ہیں اور جب ریاست کے نمائندے اس میں ملوث ہوں یا ان کی طرف سے نگاہ ہی پھیرلی جائے تو پھر اس طرح کی ظالمانہ رسموں کے خاتمہ کا امکان بہت ہی کم باقی بچتا ہے۔

سندھ میں غیرت کے نام پر قتل یا 'کاروکاری' کی قبیح رسم پر بہت کچھ لکھا جاچکا؛ قانونی طور پر اس کے خلاف اقدامات کے باوجود زمینی حقائق میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے۔

منگل کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق کاروکاری کے ایک تنازعے پر تصفیے کے لیے، حال ہی میں سندھ کے ضلع شکارپور کے قصبے وزیرآباد میں ایک جرگہ منعقد ہوا۔ میر بحر قبیلے سے تعلق رکھنے والی دو عورتوں کو جاگیرانی قبیلے کے دو مردوں کے ساتھ 'ناجائز تعلقات' کے الزام میں ان کے والدین نے مبینہ طور پر قتل کردیا۔

'اغوا' اور عورتوں سے 'ناجائز تعلقات' قائم کرنے کے الزام میں جاگیرانی مردوں پر مجموعی طور پرچوبیس لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ بظاہر، امکانی طور پر سنگین قبائلی تنازعہ طے کرنے کے لیے جرگہ منعقد کیا گیا تھا۔ اگرچہ دونوں فریقین نے جرگہ کا فیصلہ قبول کیا لیکن حیران کُن طور پر عورتوں کے قتل پر کسی ایک کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔

سب سے بڑے دھچکے کی بات یہ ہے کہ جرگے کی صدارت، پاکستان مسلم لیگ ۔ فنکشنل کے رکنِ قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے کی تھی۔

ایک ایم این اے جو قانون سازی کرنے والے فورم کی نمائندگی کرتا ہو، وہ کیوں جرگہ کے 'انصاف' میں ملوث ہوا، حالانکہ جب اگست میں جرگہ نظام کے خلاف قانون منظور ہوا، جس کی وہ خلاف ورزی کرتے محسوس ہوتے ہیں، تب وہ اس کی منظوری کا حصہ تھے۔

نہ صرف سپریم کورٹ جرگہ نظام اور اس کے انعقاد کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے بلکہ غیرت کے نام پر قتل کو ترمیمی کریمنل لاء مجریہ دو ہزار چار میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔

لیکن اس طرح کے قوانین کو عملی طور کس طرح نافذ کیا جاسکتا ہے کہ جب قانون بنانے والے ہی غیر قانونی اقدام کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش ہوں؟

یہاں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بالائی سندھ کی سرکاری مشینری بھی تنازعات کے تصفیے کی خاطر جرگوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ جب، خاص طور پر، عدالتی نظام ناقص ہو تو پھر تنازعات نمٹانے کے لیے اس طرح کے فورم مفید خیال کیے جاتے ہیں لیکن جب یہ فورم قتل اور اغوا جیسے جرائم سے صرفِ نظر کریں توپھر یہ کسی طور قابلِ قبول نہیں۔

اطلاعات ہیں کہ پولیس نے شکارپور واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔ اس خوفناک عمل کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کو ان عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنی چاہیے جو غیرت کےنام پر قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن اثر و رسوخ کی بنا پر بچ نکلتے ہیں۔