پاکستان

ساکت اور خطرناک معاہدے۔ ایک تجزیہ

پاکستان کے مقتدر طبقے اور سعودیوں کی زیرِ قیادت عرب دنیا کے تعلقات سے کسے کیا حاصل ہوا، ابھی عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔

راولپنڈی میں جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز پر پاکستان کی مسلح افواج کے اعلٰی سطح کے کمانڈروں کے ساتھ بحرین کے بادشاہ کی بدھ کو ہونے والی ملاقات کے حوالے سے پیش رفت پر چونکادینے والے سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس چکاچوند کے اُس پار پاکستان کے مقتدر طبقے اور سعودیوں کی زیرِ قیادت عرب دنیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے درحقیقت کس نے کیا حاصل کیا ہے، یہ ابھی عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔

ایک عوامی بغاوت جس سے بحرین لرز کر رہ گیا تھا، کے تین سالوں کے بعد اس عوامی بے چینی میں پاکستان کا کردار یکایک موضوعِ بحث بنا ہے۔

زیادہ سے زیادہ پاکستانی حکام اس معلومات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریٹائرڈ فوجی اہلکار بحرین کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کی تعداد کیا ہے، اس حوالے سے زیادہ کچھ واضح نہیں ہوسکا ہے۔

بحرین کے حکمران شیخ حمد بن عیسٰی بن سلمان الخلیفہ کی پاکستان آمد سے سے پہلے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا پُراسرار معاملہ بڑے پیمانے پر موضوع بحث بن گیا تھا، جو وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ایک ’دوست ملک‘ کی جانب سے پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کےذخائر میں اضافے کے لیے دیا گیا تھا۔

اگرچہ سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، لیکن پاکستان میں اس حوالے سے چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ یہ فنڈز سعودی عرب کے شہزادے سلمان بن عبدالعزیز بن السعود کے اسلام آباد کے اعلٰی سطحی دورے کے بعد سعودی عرب کی جانب سے دیے گئے ہیں۔

پاکستان کی سعودی نواز لابی کے لوگوں کی نظر میں یہ مدد ریاض کی طرف سے ماضی میں کی گئی فیوض و برکات کی برسات کا اعادہ ہے، خاص طور پر جس طرح 1998ء میں جوہری تجربات کے بعد پاکستان کو تین سال کے لیے بلامعاوضہ تیل فراہم کیا گیا تھا۔

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سعودیوں کی جانب سے ماضی میں کی گئی اس دریادلی کے بغیر اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان پر کہیں زیادہ سنگین اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔

اس کے باوجود پاکستان اس وقت کہیں زیادہ بُرے دور سے گزررہا ہے، جب اس کی داخلی سلامتی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے چیلنجز نے ممکنہ طور پر قومی تاریخ کی بدترین صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔

سعودی عرب اور بحرین، جن سیکورٹی خطرات کا سامنا کررہے ہیں، اس میں پاکستان کا کود پڑنا خطرے سے خالی نہ ہوگا، جبکہ خود اس کے اندرونی حالات انتہائی غیرمستحکم ہیں ، چنانچہ ایسے کسی اقدام سے امکان ہے کہ تنازعات پیدا ہوتے رہیں گے۔

اس خبر سے بحرین میں موجود غیریقینی صورتحال کی بھرپور نشاندہی ہوتی ہے کہ ایک بحرینی عدالت نے بدھ کے روز گیارہ افراد کو پندرہ پندرہ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان لوگوں کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے بم تیار کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

اس دوران سعودی عرب کے اسلام آباد کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ان خیالات کو تقویت بخشتے ہیں کہ ریاض کا حکمران طبقہ دو محاذوں پر خود کو سہارا دینے کے لیے اسلام آباد کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یمن کی سرحد کے نزدیک جنوبی سرحدوں کے ساتھ، اور شمال میں داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کے ساتھ ساتھ شام میں جاری خانہ جنگی کے ممکنہ پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے اس کو مدد درکار ہے۔

میڈیا کی رپورٹوں میں اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سعودیوں نے پاکستان سے ہتھیاروں اور صدر بشارالاسد کی فوج سے نبرد آزما شامی باغیوں کو تربیت دینے کے سلسلے میں کی مدد چاہی ہے۔

اگرچہ یہ تعجب انگیز نہیں ہیں، پھر بھی یہ رپورٹیں معروف ناقدین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی نمائندوں اور سیاسی حکمت عملی پر نظر رکھنے والوں کے خدشات میں اضافہ کررہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق ’’حکومت کو ان سنگین سوالات کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ناقابل تصور ہے کہ کوئی بھی آپ کو ڈیڑھ ارب ڈالر دیتا ہے اور بدلے میں کچھ نہیں لیتا۔ ایسا اس سے پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔‘‘

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے آگے بڑھ کر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اگر مشرقِ وسطی میں جاری تصادموں میں خود کو ملؤث کرلیتا ہے تو اس کے نتیجے میں خود اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر پاکستان شام میں جاری خانہ جنگی میں کسی ایک فریق کی حمایت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کے اندر جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا، اور ایران کی سرحد کے ساتھ یہ کشیدگی گویا ابل پڑے گی۔‘‘

گردوپیش کے خطے میں شیعہ سنی کی تقسیم میں الجھنے سے پاکستان پر تشویشناک اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹوں کے مطابق طویل عرصے سے جاری سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے فوجی تعلقات کے حوالے سے حالیہ فرمائشوں پر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ان کی مثالیں نہیں ملتیں۔

پاکستان کے دفاعی امور کے ایک مبصر بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان کہتے ہیں کہ ’’1980ء کی دہائی کے دوران ہمارے فوجی وہاں گئے تھے، جب خلیجی جنگ کے پھیلتے ہوئے خطرات کا سعودیوں کو سامنا تھا۔‘‘

تاہم بریگیڈیئر فاروق حمید نے خبردار کیا کہ پاکستان کا ایک وسیع بالخصوص فرقہ وارانہ تصادم میں کود پڑنا خود اس کے اپنی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کردے گا۔

پاکستان کے ہلکے ہتھیاروں کو شامی باغیوں کو فراہم کرنے کی سعودی درخواست کی غیر مصدقہ رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’’خلیج میں تصادم کی صورتحال میں پاکستانی ہتھیار کہیں بھی استعمال نہیں ہونے چاہیٔیں۔‘‘

جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں پاکستان کے گہرائی کے ساتھ ملؤث ہونے کی حمایت اور مخالفت پر اسلام آباد کے اطراف میں وسیع بحث جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ مغربی سفارتی مبصرین وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو ممکنہ طور پرمعنی خیز پالیسی کےاختیار کرنے میں ناکام قرار دے رہے ہیں۔

ایک سینئر مغربی سفارتکار نے بدھ کے روز کہا کہ ’’ذہن یہ بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کے ساتھ آپ کی حکومت ہے، لیکن آپ کو پارلیمانی عمل پر ذرا بھی بھروسہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافی کچھ راز میں رکھا جارہا ہے۔‘‘

انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہاکہ ’’ایک سیاسی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جائے، ایوان میں معاملہ پیش کرے اور ثابت کردے کہ اس کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ آپ کے پاس جمہوریت تو ہے، لیکن آپ جمہوری کردار نہیں رکھتے۔‘‘

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

(فرحان بخاری کی تجزیاتی تحریر کا ترجمہ)

اسلام آباد میں مقیم صحافی فرحان بخاری، سیاست، معاشیات اور سیکیورٹی کے معاملات پر لکھتے ہیں۔