مووی ریویو: ٹوٹل سیاپا
ٹوٹل سیاپا میں، ایک مسلم پاکستانی لڑکا اور ایک ہندو انڈین لڑکی کو دکھایا گیا ہے جو شادی کے لئے لڑکی کے والدین کی منظوری چاہتے ہیں، مسئلہ ان کا مذہب نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے۔
فلم دیکھنے کے دوران کبھی کبھی تو آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ 'چہرے/ہونٹوں پر ہاتھ' رکھنے والے بے شمار لمحات جان بوجھ کر ڈالے گئے ہیں یا بنا سوچے سمجھے- علی ظفر کی 'ہندوستان پاکستان سے نفرت کرتا ہے' والے جذبات سے مزین یہ نئی کامیڈی فلم، اس قسم کے سطحی اور گھٹیا سینز سے بھری پڑی ہے۔
علی ظفر اس فلم میں امن بنے ہیں جو اپنی گرل فرینڈ آشا (یامی گوتم) کے گھر ایک تعارفی ملاقات کیلئے جاتا ہے، گو کہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ آشا کے والدین کی منظوری یا نامنظوری سے ان کے شادی کرنے کے ارادے پر کوئی فرق نہیں پڑنا- اگر ہم مستقبل دیکھ پاتے جو کہ شکر ہے ہم نہیں دیکھتے کیونکہ ٹوٹل سیاپا تو محض 'والدین سے ملاقات' والے دن کی کہانی تک ہی محدود ہے، تو ہمیں پتا چلتا کہ اس خاندان میں کون ٹوپی پہنتا- امن ایک لچیلا، کسی حد تک دبا دبا سا لڑکا ہے جبکہ آشا اس کے مقابلے میں اپنی بات منوانے والی دبنگ لڑکی ہے۔
دوسری جانب اس کی فیملی، پاکستان کے خلاف فاخرانہ سوچ رکھتی ہے- اس کا بھائی، مانو (انوج پنڈت)، نچلے فلور پر رہنے والی پاکستانی فیملی سے خار کھاتا ہے (فلم میں ان سے انتقام لینے کے لئے، وہ کسی نابالغ مجرم کی طرح ان کی کار کے سائلینسر میں کیلا ٹھونس دیتا ہے) جبکہ آشا کا نیم اندھا 'دادو' امن کو فخریہ وہ بندوق دکھاتا ہے جس سے اس نے جنگ کے وقت، چار پاکستانیوں کو مارا تھا۔
کرن کھیر نے، آشا کی ماں کا کردار نبھایا ہے اور کیا خوب نبھایا ہے- وہ ایک ٹیپیکل پنجابی ماں بنی ہیں جو اپنے آپ میں رہتی ہے، خوش اور کبھی کبھار ناراض، وہ گھر میں منطق کی واحد آواز ہیں۔
اور پھر آشا کی پٹاخہ بہن جیا ہے، ایک ایسی جنگلی لڑکی جو اپنے کنجوس مکھی چوس شوہر سے جھگڑنے کے بعد عارضی طور پر اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہے اور جو امن کو بھی ناپاک نظروں سے دیکھتی ہے- جیا اپنی بیٹی کو پالنے کا مشکل کام بھی کر رہی ہے، جو ایک پیاری سے چھوٹی سی بچی ہے اور جو 'دل والے دلہنیا لے جائینگے' کی دیوانی ہے- اسے ایک عجیب سے عادت بھی ہے، وہ اپنے پیٹ پر کپڑوں میں تکیہ ڈال کر یہ دعویٰ کرتی پھرتی ہے کہ 'آئی ایم پرگننٹ'-
میں اکثر سوچتا ہوں کہ بچے ایسی حرکتیں کہاں سے سیکھتے ہیں لیکن اس بچی کو دیکھنے کے بعد، جو ایک ایسے ماحول میں پل بڑھ رہی ہے جہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، میں کم از کم بیڈ پیرنٹنگ پر قہقہہ مار سکتا ہوں- ایک سین میں، جیا بچی کو ڈانٹتی ہے کہ وہ تمیز سے امن سے جوس کا پوچھے لیکن اس کا اصرار ہوتا ہے کہ 'ہم پلیز نہیں کہتے'- ڈائریکٹر ای نیواس نے یہ کہیں واضح نہیں کیا کہ دشمنی کے اس لطیف واقعے کا نشانہ ایک پاکستانی تھا یا پھر یہ دشمنی سب کے لئے تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آشا کے والد (انوپم کھیر) کا کردار بدقسمتی سے بہت دیر بعد ڈائریکٹر کے ذہن میں آیا- ان کی الگ کہانی چل رہی ہوتی ہے، جس میں ان کی آنکھ ایک اسپتال میں کھلتی ہے اور ان کی یاداشت متاثر ہوتی ہے اور آگے چل کر وہ ایک طوائف کو غلطی سے اپنی بیوی سمجھ بیٹھتے ہیں- کھیر، جو کہ فلم کے دوسرے حصے میں نظر آتے ہیں، فلم کی اصل کہانی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں- دوسری چیزوں کی طرح، جس میں علی ظفر کی بے ڈھنگی اداکاری بھی شامل ہے، کھیر کی حرکتیں بھی اسی طرح کھلتی اور تکلیف دیتی ہیں جیسے کسی کا انگوٹھا جسے لندن کی بھڑ نے کاٹ لیا ہو (ویسے یہ فلم بھی لندن میں بنی ہے اور اس میں لندن ہی دکھایا گیا ہے)-
فلم میں نیواس کی ڈائریکشن اور نیرج پانڈے (اسپیشل 26) کا اسکرین پلے (جو کہ فلم اونلی ہیومن سے لیا گیا ہے) فلم میں دکھائی گئی تنگ جگہوں ہی کی طرح محدود اور بودا ہے- فلم میں اسٹیڈی کیم کے بہت سے شاٹس ہیں -- اور یہ 'بوجھو تو کھانے پر کون آ رہا ہے' والی ذہنیت کی عکاس ہے- فلم کے پوٹنشیل کو صحیح معنوں میں استعمال ہی نہیں کیا گیا (مثال کے طور پر، دادو کی بندوق کو جسے نمایاں طور پر الماری کے اوپر رکھا جاتا ہے، آسانی سے چیخوف کی بندوق بنایا جاسکتا تھا)۔
علی ظفر کے کردار کی طرح، یہ فلم بھی گھریلو رویہ کے ساتھ بنائی گئی ہے کیونکہ اس میں جان بوجھ کر کسی حقیقی ہندوستان پاکستان رنجش کو نظر انداز کرتے ہوئے دو بدو لڑائی جھگڑے دکھائے گئے ہیں۔
آشا کی فیملی کا پاگل پن، کسی حد تک فلم کو دیکھنے لائق بناتا ہے ورنہ ہر چیز- جس میں کب کہاں اور کیسے امن اور آشا میں پیار ہوا اور فلم کا برطانیہ مخالف اسٹانس اور اس کی وجہ بھی شامل ہیں، ہمیں اپنے اپنے حساب سے سوچنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔
ٹوٹل سیاپا کو ریلائنس انٹرٹینمنٹ نے ریلیز کیا ہے، جبکہ پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ مخالف بھدے مذاق اور بیڈ پیرنٹنگ سینز کی بنا پر اسے یو/اے سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر: ای نیواس- پروڈیوسر: نیرج پانڈے اور شیتل بھاٹیہ- لکھاری: نیرج پانڈے- سنیماٹوگرافی: ڈیوڈ میڈوز- ایڈیٹنگ: شری نارائن سنگھ- میوزک: سنجو چوہدری
فلم کے ستاروں میں شامل ہیں علی ظفر، یامی گوتم، انوپم کھیر، کرن کھیر، سارا خان، انوج پنڈت اور وشوا ایس بدولا
ترجمہ: شعیب بن جمیل