نقطہ نظر

یو ٹیوب کی بندش

بحالی کا وعدہ زیادہ خطرناک، حکومت صارفین کی آن لائن زندگی پر نظر رکھ سکے گی۔

یہ بارہ ستمبر، سن دو ہزار بارہ کی بات ہے کہ جب دل آزار وڈیو فلم اپ لوڈ ہونےکے باعث، اُس وقت کے وزیرِ اعظم نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو یو ٹیوب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

بعض دیگر ممالک کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے لیکن مصر و ہندوستان سمیت مٹھی بھر ممالک نے یو ٹیوب کی پدری کمپنی، گوگل کے ساتھ عالمی معاہدے کو جنبش دی، جس کے تحت انہیں اپنی سرحدوں کے اندر، ویب سائٹ کو جُوں کا تُوں رکھتے ہوئے، متنازعہ مواد ہٹانے کا اختیار مل گیا تھا۔

لیکن پاکستان، دستاویزی طور پر تیاری اور منتخب انٹرنیٹ مواد کو فلٹرز کے ذریعے روکنے کی تکنیکی صلاحیتوں، دونوں کے فقدان کےباعث یہ اختیار حاصل نہ کرسکا اور نتیجتاً یوٹیوب پر مکمل پابندی بحال رہی۔

اُس کے بعد سے یہ معاملہ کئی بار اٹھایا گیا اور متعدد بار یقین دہانیاں کرائی جاتی رہیں کہ ویب سائٹ پر عائد پابندی جلد اٹھالی جائے گی۔ بے شک، ایک بار نہایت مختصر مدت کے لیے یہ پابندی ہٹائی بھی گئی لیکن دوبارہ پابندی لگانے کی خاطر۔

تاہم، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے اتوار کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پابندی جلد اٹھالی جائے گی۔ یہ خوش آئند خبر ہے۔ اول، انہوں نے جو کچھ کہا کہ یہ اُن کی یا مستقبل کی کسی بھی حکومت کی طرف سے نامناسب تصور کیا جاسکتا ہے؟

یہ پاکستانیوں کو آن لائن رسائی کی اجازت نہیں دے رہے بلکہ کسی بھی وقت کسی بھی سطح تک، یہ انٹرنیٹ اور شہری آزادیوں کو خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔

بہرحال ہمیں یہ نہیں بھلانا چاہیے کہ موجودہ حکومت نے کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے بیلٹ بکس بھرے جانے کی وڈیو انٹرنیٹ پر آنے کے فوراً بعد اسے ہٹانے کے لیے برق رفتاری سے حرکت کی تھی۔ دوسرا یہ کہ جس سافٹ ویئرکی بات کی گئی ہے، اس کے زریعے حکومت کو شہریوں کی آن لائن زندگی پر نظر رکھنے کی بھی اجازت ملتی ہے۔

دستاویزی کاموں پر توجہ دینا زیادہ دانشمندانہ ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ گوگل امریکی کمپنی ہے اور حکومتِ پاکستان امریکا کے ساتھ میوچل لیگل اسسٹنس ٹریٹی پر دستخط کرے۔ پاکستانی قوانین اس طرح کے معاملات پر غور کی اجازت دیتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ، کسی صارف کی جانب سے متنازعہ مواد کو اپ لوڈ کیے جانے سے روکنے کی خاطر قانون سازی کی جائے، اس سے گوگل اور اس جیسی دیگر کمپنیوں کو مقامی سطح پر اقدامات اٹھانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس معاملے کو اُس سائبر کرائم بِل میں چھوا گیا ہے، جس پر ریاست گذشتہ دو برسوں سے کام کررہی ہے۔

بنا کسی شک و شبہ کے، یو ٹیوب تک رسائی ہو اور اس کے لیے صحتمندانہ طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں

ڈان اخبار