نقطہ نظر

پرائیویٹائزیشن کے خطرناک اثرات

مزدوروں کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے اور صارفین کے مفاد کو نظرانداز کیا جارہا ہے
Welcome

حکومت کے کافی بڑی تعداد میں اداروں کی نجکاری کے منصوبوں پر بحث مباحثہ سے انکار نے، ان شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے جو اس پالیسی کی صحت اور اس پر عمل درآمد کی درستگی کے بارے میں پائے جاتے ہیں-

حکومت کی نامناسب خاموشی کے خلاف، ممتاز ماہرین معاشیات نے جن کی ایمانداری مصدقہ ہے موجودہ نجکاری کی پالیسی میں پائی جانے والی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے- ان کا خیال ہے کہ ان منصوبوں کی منطق اور پیمانہ ریاست کے معاشی مفادات سے ٹکراتا ہے- مزدور اور کارکن بھی سماجی اسباب کی بناء پر اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں: مزدوروں کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے اور صارفین کے مفاد کو نظرانداز کیا جارہا ہے- ارباب اختیار پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں اعتراضات کا جواب دیں-

بہت سے مبصرین کی کڑی تنقید کی بنیاد وہ کتاب ہے جسے سابقہ پلاننگ سکریٹری، ڈاکٹر اختر حسن خان نے تحریر کیا ہے- دی امپیکٹ آف پرائیویٹائزیشن نامی یہ کتاب علمی قدر و قیمت کی حامل ہے جس میں نجکاری اور اس پر عمل درآمد کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان لوگوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیئے جو اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں- ایشیائی ترقیاتی بینک کی 1998 کی تجزیاتی رپورٹ، اور ماہرین معاشیات(مثلاً اے آر کمال) اور خود اپنی تحقیقات کی بنیاد پر مصنف نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:

*سرکاری اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں ان کی انتظامی کارکردگی بہتر نہیں ہوئی؛ صرف 20 فی صد یونٹوں کی کارکردگی بہتر رہی، 44 فی صد کی کارکردگی ویسی ہی رہی جیسی نجکاری سے پہلے تھی، جبکہ 35 فی صد کی کارگردگی اور بھی بدتر ہوگئی- نجکاری کے بعد خراب کارکردگی والے سرکاری مینیوفیکچرنگ اداروں کی تعداد بڑھ کر 42 فی صد ہوگئی-

*مزدوروں کو فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اس دوران روزگار کی شرح گھٹ گئی-

*کئی ایک یونٹوں کو تو کوڑیوں کے دام فروخت کردیا گیا، بلکہ بعض کو تو ان لوگوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا جن کو اس کا تجربہ نہیں تھا- نتیجہ یہ ہوا کہ اول الذکر نے ناجائز منافع کمایا جبکہ ناتجربہ کار لوگوں کی وجہ سے بہت سے اہم یونٹ بند ہوگئے(مثلاً ذیل پاک سیمنٹ، نیشنل سیمنٹ اور پاک چائنا فرٹیلائزر)

یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ نجکاری کے جوش میں ریاست کے مفادات کو نظرانداز کردیا گیا- مثلاً سیول ایویئشن اتھارٹی کی نیلامی کردی گئی- کیا دفاعی حکمت عملی کے ماہر اس بات کو قبول کرسکتے ہیں کہ پاکستان کی فضائی عملداری کو پرائیویٹ پارٹیوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح ایک ایسے ملک میں جہاں غیر معیاری سڑکوں کی تعمیر میں بڑے بڑے گھپلے ہوتے ہیں، کیا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی نجکاری مناسب ہے؟ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی نجکاری کا خیال انتہائی مضحکہ خیز ہے- اسکے ٹرسٹیز خود اس کے حصہ دار ہیں، صرف چیئرمین کی تعیناتی حکومت کرتی ہے- اگر حکومت چیئرمین کو نامزد کرنا چھوڑ دے اور ٹرسٹیز کو اختیار دیدے کہ وہ اسے منتخب کریں تو یہ ادارہ پوری طرح سے پرائیویٹ ہوجائیگا-

نجکاری کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری شعبہ خرابی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے، حکومت کاروباری اداروں کو چلانے کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس کا کام ہے- ان مفروضوں کو چیلنج کیا جاسکتا ہے-

نجکاری اور ڈی ریگیولیشن کے نظریہ میں ریاست کے فلاحی پہلو کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام کے مفاد میں معاشی ترقی کی منصوبہ بندی اس کے فرائض میں شامل ہے--- یہ کہ منافع خور سرمایہ داروں کے استحصال سے ان کی ملازمتوں کے تحفظ کی ضرورت ہے- پاکستان کے معاملے میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہاں کا نجی سرمایہ دار وہ ادارے قائم کرنے کے قابل نہیں ہے جن کی ملک کو ضرورت ہے-

چنانچہ، پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن قائم کیا گیاتاکہ ایسے مینیو فیکچرنگ یونٹس بنائے جائیں جنھیں نجی شعبہ کے حوالے کردیا جائےاور پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جانے لگا جہاں سرکاری فنڈوں کے ذریعے نجی شعبہ کومواقع فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے- اس کا مطلب ہے نجی سرمایہ کاروں کو اس بات کا موقع فراہم کرنا کہ وہ سرکاری وسائل استعمال کر کےخود پیسہ بنائیں-

بعض پروجیکٹس کو سرکاری شعبہ میں رکھنا ضروری ہے مثلاً ہتھیاروں اور اسلحہ کی پیداوار- ظاہر ہے کہ اسے نجی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا- سب سے آخر میں یہ کہ جن نجی اداروں کو ناکافی محسوس کیا گیا یا جن کے بارے میں یہ سمجھا کیا گیا کہ ان میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ خدمات فراہم کرسکیں انھیں سرکاری شعبہ میں لے لیا گیا- ان میں سے سب سے اہم ادارے شہروں میں واقع بجلی پیدا کرنے والے اور تقسیم کرنے والے ادارے تھے-

کیا پاکستان اس حد تک ترقی کرچکا ہے کہ اسے سرکاری شعبہ کی ضرورت نہیں رہی؟ کیا نجی شعبہ کے پاس اتنا سرمایہ اور مہارت ہے کہ وہ زراعت کے پانی کی ضرورت اور آبپاشی کے وسائل فراہم کرسکے؟ کیا کوئی بھی شخص جسے درہ آدم خیل کے بندوق سازوں کی پیدا کی ہوئی دہشت کا علم ہے سنجیدگی سے سوچ بھی سکتا ہے کہ واہ آرڈیننس فیکٹری کو نجی شعبہ کے حوالے کردیا جائے؟ کیا نیوکلیئر پاور کی پیداوار کو نجی شعبہ کو دینا مناسب ہے؟

ایک پسماندہ ریاست اپنے مزدوروں اور صارفین کو منافع خور سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی- پاکستان میں نجی شعبہ میں مقابلہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں قیمتیں کم ہوسکیں- پاکستان میں جائز منافع اور استحصالی ذہنیت کے درمیان بہت کم فرق ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ استحصالی رویہ معمول کی بات بن چکا ہے-

اس بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نہ تو یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ سرکاری شعبہ میں صرف برائیاں ہی برائیاں ہیں اور نہ ہی یہ کہ نجی شعبہ میں سب کچھ اچھا ہے- اس بارے میں کوئی قطعی رائے نہیں دیجاسکتی- جہاں کہیں معاشرے میں سرمایہ اور ہنرمندی کی قلت ہوتی ہے، وہاں سرکاری شعبہ پر واجب ہے کہ وہ صارفین اور مزدوروں کے مفادات کا تحفظ کرے- اس کے علاوہ یہ بھی غلط ہے کہ، مثلاً، پی آئی اے اور پاکستان ریلویز یا واپڈا کو خالصتاًتجارتی ادارے سمجھا جائے؛ یہ عوامی خدمات فراہم کرنے والے ادارے ہیں- انھیں منافع بخش بنانے کے بعد فروخت کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں موثر بنایا جاسکتا ہے اور یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کہ ان کی نجکاری ضروری ہے- ان اداروں کو کسی غیر ملکی یا مقامی سرمایہ کار کے ہاتھ فروخت کرنا عوام کے مفاد کے خلاف ہوگا-

ضروری ہے کہ ماضی کی بدعنوانیوں کی روک تھام کی جائے؛ نجکاری کی پالیسی پر کھلے عام نظرثانی کیجائےجس میں تمام متعلقہ فریق حصہ لیں اور جتنا جلد اس پر عمل ہوگا اتنا ہی بہتر ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔