نقطہ نظر

ہائی وے- ریویو

عالیہ بھٹ نے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی اور کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ فلم انڈسٹری میں ابھی نئی ہیں۔

اپنی سرزمین کی پوشیدہ خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنا اور پھر اسے سکرین پر اس انداز سے پیش کرنا جو دیکھنے والوں کو بھی مسحور کر کے رکھ دے یہ کام کوئی ایسا ہی شخص کرسکتا ہے جو اپنے وطن کے چپے چپے سے واقف ہو اور جسے اپنی زمین سے واقعی محبّت ہو- ڈرامہ فلم 'ہائی وے' کے رائٹر و ڈائریکٹر امتیاز علی نے یہ کام بڑے احسن طریقہ سے انجام دیا ہے- ہائی وے کو ہندوستان کے خام جمالیاتی حسن کا شاہکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ہائی وے، کا آغاز ہوتا ہے دہلی کے ایک صنعتکار کی بیٹی 'ویرا تریپاٹھی' کی شادی کی تیاریوں سے- روایتی شادی کی تیاری کے بیچ جوان سال ویرا سب سے الگ تھلگ، اداس نظر آتی ہے، اسی گھٹن کو دور کرنے کے لئے وہ ایک رات اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ سیر کے لئے نکل پڑتی ہے، راستے میں اسے اغوا کر لیا جاتا ہے اور اس طرح اس کی زندگی کے طویل مگر انوکھے سفر کی شروعات ہوتی ہے۔

اپنے گھر اور خاندان سے دور، بے بس ویرا کو زندگی میں پہلی بار اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے، اسے اپنے ساتھ ہونے والا سانحہ ایک معجزہ محسوس ہونے لگتا ہے- یہ خودشناسی کا سفر اسے زندگی کی نئی وسعتیں، نئے راستے دکھاتا ہے۔

'ہائی وے' محدود بجٹ پر بنائی گئی ایک غیر روایتی فلم ہے، اس میں عام انڈین موویز کی طرح نہ گلیمر ہے، نہ ایکشن اور نہ ہی تھرلر جسے آج کل فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے- اس کی خوبصورتی اس کا نان- کمرشل پہلو ہے- کہانی بالکل سادہ ہے تقریباً غیر حقیقی، لیکن یہ ڈائریکٹر اور سنیماٹو گرافر کا کمال ہے کہ ادھورے جذبات اور مناظر کا استعمال کر کے انہوں نے اس میں حقیقی رنگ بھر دیا ہے۔

فلم میں دہلی کی امیرزادی ویرا ٹرپاتھی کا مرکزی کردار عالیہ بھٹ نے ادا کیا ہے، ان کی نیچرل پرفارمنس خصوصاً طویل مونولوگ کے دوران بیساختگی پر کہیں بھی اداکاری کا شبہ محسوس نہیں ہوتا- یہ اعتراف ضروری ہے کہ عالیہ بھٹ نے اپنے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی ہے- کردار کے جذباتی اتار چڑھاؤ سے کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ عالیہ فلم انڈسٹری میں ابھی نئی ہیں- اگر انہوں نے اپنے فلمی کریئر کو اسی طرح برقرار رکھا تو وہ بولی وڈ فلم انڈسٹری کا بہترین اثاثہ ثابت ہوں گی۔

عالیہ بھٹ کے مقابل دوسرا مرکزی کردار، ایک غصیلے گجر 'مہابیر بھٹی' کا ہے جسے رندیپ ہودہ نے ادا کیا ہے- رندیپ اس سے پہلے بھی اپنے مداحوں کو بہترین پرفارمنس سے محظوظ کرتے رہے ہیں، 'ہائی وے' میں بھی انہوں نے ہمیں مایوس نہیں کیا- فلم میں یہ دونوں ہی کردار توجہ کے طلب گار اور دلچسپ محسوس ہوتے ہیں۔

فلم میں رائٹر و ڈائریکٹر امتیاز علی نے دو ایسے زخمی اور ٹوٹے ہوئے انسانوں کی کہانی پیش کی ہے جن کا تعلق بالکل متضاد سماجی پس منظر سے ہے لیکن اس فرق کے باوجود انہیں ایک دوسرے کی رفاقت میں اپنے زخموں کو بھرنے اور ذاتی شناخت کا موقع ملتا ہے- فلم کے موضوع میں کچھ نیا پن نہیں ہے، ایک عام اغواءکار اور اس کے شکار کی کہانی ہے، اس موضوع پر بننے والی اکثر ہالی ووڈ موویز کی طرح یہاں بھی قیدی کو کچھ عرصے بعد اپنے مجرم سے انسیت محسوس ہونے لگتی ہے، اس کیفیت کو نفسیاتی اصطلاح میں 'stockholm syndrome' کہا جاتا ہے- لیکن ساتھ ہی کہانی میں امتیازعلی، منافق معاشرے کے گھناونے چہرے کو بھی بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں- کہانی میں مثبت اشارہ دیا گیا ہے کہ سماج کا چاہے کوئی بھی طبقہ ہو، کمزور کا ہمیشہ استحصال کیا جاتا ہے، اس کی کمزوری کا ہمیشہ فائدہ اٹھایا جاتا ہے- بعض اوقات انسان جس جگہ کو اپنے لئے محفوظ ترین خیال کرتا ہے وہیں پر اسے زندگی کے بدترین تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔

فلم کی موسیقی موسیقار اے آر رحمان نے تشکیل دی ہے جو کہانی کے لینڈ سکیپ کے ساتھ پوری طرح انصاف کرتی نظر آتی ہے- راجھستان کے نمکین میدانوں سے لے کر کشمیر تک کے سفر میں فلم کی موسیقی اور گیت بھی ساتھ ہی ساتھ تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں، موسیقار نے کسی ایک سٹائل پر اکتفا نہیں کیا- اس کے گیت نگار ارشاد کامل ہیں اور سنیماٹوگرافی انیل مہتا کی ہے- فلم کے پروڈیوسر ساجد ناڈیاوالا ہیں جبکہ کو- پروڈیوسر امتیاز علی ہیں۔

فلم کا آخری آدھا گھنٹہ سب سے اہم ہے، اس کا اختتام فلم بینوں میں ایک تشنگی سی چھوڑ جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کاش ویرا اور مہابیر مختلف حالات میں ایک دوسرے سے ملتے، کاش اس کہانی کا انجام مختلف ہوتا۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ 'ہائی وے' کو آپ روایتی ایکشن، ڈرامہ بولی وڈ کی کیٹگری میں نہیں رکھ سکتے نہ ہی یہ کوئی رومانوی فلم ہے- اس کا مقابلہ 'رنگ دے بسنتی' ، 'دل سے' یا 'زنجیر' جیسی فلموں سے کیا جا سکتا ہے- حالانکہ ابھی رواں سال کا آغاز ہے، اور قبل ازوقت کچھ کہا نہیں جاسکتا، پھر بھی 'ہائی وے' سنہ دو ہزار چودہ کی بیسٹ فلم کے ایوارڈ کی حقدار ہے۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔